|

وقتِ اشاعت :   January 8 – 2017

جب سے مسلم لیگ کی حکومت آئی ہے اس نے سوائے بلوچستان کے پورے ملک کے ریلوے نظام میں بہتری لانے کی کوششیں شروع کردی ہیں۔ مرکزی ریلوے ٹریک پر آرام دہ اور اچھی ٹرینیں چلائی جارہی ہیں جن کی تعریف کرنی چاہیے اکثر پنجاب اور سندھ کے درمیان چلنے والی ٹرینوں میں مسافروں کی سہولیات کا زیادہ خیال رکھا گیا ہے ان آرام دہ ٹرینوں سے لوگ استفادہ بھی کررہے ہیں لیکن بلوچستان ریلوے عدم توجہی کا شکار ہے، یہاں پر موجود ریلوے کے زبردست اثاثے تباہ ہورہے ہیں ریلوے افسران مسافروں کو سہولیات فراہم کرنے کے بجائے اپنے تجارتی مفادات کا تحفظ دیدہ دلیری سے کررہے ہیں ٹرینوں کی حالت انتہائی خراب ہے، ڈبے پرانے ،بوسیدہ اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں یہاں تک کہ اے کلاس بھی انتہائی بوسیدہ ہے۔ پہلے ایک نان اسٹاپ ٹرین کراچی اور کوئٹہ کے درمیان چلا کرتی تھی وہ سالوں سے بند ہے کبھی یہ کوشش نہیں کی گئی کہ بلوچستان ایکسپریس کو دوبارہ چلایا جائے، اس کو فعال بنایا جائے اور لوگوں کو بہتر سفری سہولیات فراہم کی جائیں ۔لیکن پاکستان ریلوے ان تمام معاملات پر توجہ دینے سے قاصر ہے چونکہ بلوچستان ایک ایسا صوبہ ہے جس کی بات کوئی نہیں سنتا سب کے سب اس کی مشکلات اور معاملات کو نظرانداز کرتے رہتے ہیں اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وفاق میں بلوچستان کی نمائندگی صفر ہے ۔پاکستان کا ایک شہر ہے جس کے 36باسی ملک کے مختلف وزارتوں اور ڈویژنز کے سربراہ ہیں اور دوسرے صوبوں میں چیف سیکرٹری بھی ہیں۔ کوئٹہ۔ زاہدان ریلوے وسط ایشیائی اور جنوبی یورپ کے ممالک سے ریلوے کے نظام سے منسلک ہے لیکن پاکستان ریلوے کو سانپ سونگھ جاتا ہے جب یہ مطالبہ کیا جاتا ہے کہ کوئٹہ۔ زاہدان سیکشن کو بین الاقوامی معیار کے مطابق بنایا جائے تاکہ پورا پاکستان وسط ایشیائی اور جنوبی یورپ کے ریلوے نظام کے ساتھ منسلک ہو جائے جس کا فائدہ ملک کے عوام اٹھائیں، ایران، ترکی اور دیگر ممالک کے ساتھ ریل کے ذریعے تجارت ہو۔ واضح رہے کہ زاہدان ریلوے پورے ایران کے ساتھ جڑا ہوا ہے اس کا فائدہ اٹھانا چاہیے بلکہ اس کا فائدہ پاکستان بھر کے عوام کو ملنا چاہیے۔ اس لئے ہم اکثر یہ مشورہ دیتے رہتے ہیں کہ گوادر کی ترقی کیلئے ریلوے کی اہمیت سب سے زیادہ ہے اس لئے گوادر کے ریلوے کے نظام کو پہلے نوکنڈی سے ملایا جائے تاکہ وسط ایشیائی اور یورپی ممالک گوادر پورٹ کی افادیت سے آگاہ ہوں اور اس سے تجارتی فائدہ اٹھائیں۔ گوادر زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ ترقی کرے بقیہ پاکستان یا سی پیک کیلئے کراچی کی بندرگاہ اور پورٹ قاسم موجود ہیں ان سے استفادہ کیا جائے اور اگر اس سے زیادہ کی ضرورت ہوئی تو گوادر کو استعمال کیا جائے لیکن عقل کے اندھے پہلے مرحلے میں گوادر ریلوے کو جنگل بیابان کی طرف لے جارہے ہیں جہاں پر موجودہ حالات میں ترقی اور تجارت کے مواقع صفر کے برابر ہیں پھر یہ اتنا مشکل راستہ ہے کہ جہاں پر ریلوے کا نظام قائم کرنے میں اور پاکستان کے معیار کی ترقی کے اعتبار سے اس کو کم سے کم ایک صدی درکار ہوگی۔ اس کا دوسرا مطلب یہ لیا جائے کہ حکومت کاکوئی ارادہ نہیں ہے کہ گوادر کی بندر گاہ کو پاکستان اور خطے کے ممالک استعمال کریں یا اس کو جلد سے جلد فعال بنائیں۔ جب میدانی علاقے سے گوادر کی بندرگاہ ریلوے لائن کے ذریعے نوکنڈی سے منسلک ہو جائے گی اور پاکستان کا ریلوے نظام وسیع تر ہوجائیگا لیکن حکام بضد ہیں کہ مغربی ایشیاء کی طرف نہیں جانا ہے گوادر کیلئے جنوبی ایشیاء میں ترقی کی کوئی گنجائش آئندہ 50سالوں میں نظر نہیں آتی۔ بعض مبصرین کا یہ خیال ہے کہ اگر گوادر کی بندرگاہ بین الاقوامی معیار پر فعال ہوگئی تو اس سے پاکستان اور اس کی خارجہ سیاست اور پالیسی کو مشکلات کا سامناکرنا پڑ سکتا ہے ۔ایران بندر عباس کی بندرگاہ سے سالانہ 6ارب ڈالر کما رہا ہے پاکستان اگر جلد سے جلد گوادر بندرگاہ کو مکمل کرے اور اس کو فعال بنائے تو پاکستان سالانہ 10ارب ڈالر کما سکتا ہے کیونکہ بندر عباس اور وسط ایشیاء کے درمیان فاصلہ 2800 میل ہے جبکہ گوادر سے یہ فاصلہ صر ف 1400میل ہے یعنی مسافت آدھی رہ جائے گی اسی وجہ سے ایران گوادر کے قریب چاہ بہار کو تیزی سے ترقی دے رہا ہے وہ اپنی آمدنی اور اثر ورسوخ میں اضافہ دیکھنا چاہتا ہے جبکہ پاکستان میں ایسی خواہش کا وجود ہی نظر نہیں آتا۔