قومی احتساب بیورو کے قوانین میں بعض ترامیم کی جارہی ہیں اور اس میں چیئرمین کے صوابدیدی اختیارات ختم کیے جارہے ہیں۔ ان کے اختیارات پر پاکستان بھر میں بحث کی جارہی تھی اور ان کے صوابدیدی اختیارات کو نکتہ چینی کا نشانہ بنایا گیا خصوصاً عوامی حلقوں کی طرف سے۔ اس کے بعد حکومت نے یہ فیصلہ کیا کہ ان کے صوابدیدی اختیارات واپس لیے جائیں اور نیب کے قوانین میں مزید ترامیم بھی کی جائیں لیکن مسئلہ اس سے کہیں زیادہ سنگین ہے۔ نیب نے گزشتہ 15سالوں میں یہ بات واضح طور پر ثابت کردی ہے کہ یہ ایک نااہل ادارہ ہے، کرپشن کے خاتمے کو تو چھوڑدیں یہ اس میں معمولی کمی بھی نہ لاسکی البتہ کرپشن کی شدت میں اضافہ ضرور ہوا خصوصاً پلی بارگین نے ڈاکوؤں اور لٹیروں کو زیادہ طاقت ور اور توانا بنادیا ہے کہ وہ زیادہ دلیری کے ساتھ قومی خزانے پر ڈاکہ ڈالیں اور عوام کی دولت کو بے دردی سے لوٹیں۔ وجہ یہ ہے کہ نیب پر عوام الناس کا اعتماد بالکل اٹھ گیا ہے جس کسی ادارے پر عوام الناس کا اعتماد اٹھ جائے تو وہ کسی کام کا نہیں رہتا اور عوام کے مفادات کا نگران نہیں رہتا بلکہ عوام دشمن عناصر کا ٹولہ بن جاتا ہے۔ جنرل پرویز مشرف نے اپنے مخالفین کو ٹھکانے لگانے اور حمایتیوں کو تحفظ دینے کے لیے قومی احتساب بیورو کو قائم کیا تھا۔ فوج کے سربراہ نے اپنے مفادات کے تحفظ کی بناء پر چیئرمین حضرات کو صوابدیدی اختیارات دیئے تھے۔ وجہ یہ تھی کہ مخالفین کو راہ راست پر لانا تھا اور سیاسی مخالفین کے ضمیر کو خریدنا تھا اس لئے نیب کے چیئرمین کو لامحدود اختیارات دیئے گئے۔ بلوچستان میں کسی بھی ایک مگر مچھ پر ہاتھ نہیں ڈالا گیا البتہ لاوارث اور بعض معصوم انسانوں کو گرفتار کیا گیا، بعض لاوارث حضرات ابھی تک جیل میں ہیں اس کے برعکس طاقتور سیاسی عناصر آزاد ہیں۔ نہ وہ عدالت میں پیش ہوتے ہیں او رنہ اپنے آپ کو نیب کے سامنے جوابدہ سمجھتے ہیں۔ بلوچستان میں قانون کی حکمرانی کے اعلیٰ ترین معیار کا اندازہ کرپشن کی موجودگی سے لگایا جاسکتا ہے۔ بلوچستان میں کرپشن کا معیار یہ ہے کہ ایک افسر کے سرکاری رہائش گاہ سے 65کروڑ روپے نقد اور زیورات برآمدہوتے ہیں جبکہ ایک دوسرے افسر کے پاس سے 13ارب برآمد ہوتے ہیں۔ ان دونوں افسروں نے بلوچستان میں حالیہ سالوں میں لوٹ مار کی بلوچستان میں ہر آنے والا افسر لکھ پتی، کروڑ پتی اور ارب پتی بن کر واپس اپنے گھر جاتا ہے۔ ظاہر بات ہے کہ اچھی جگہ تعیناتی کے لیے بھی اتنی بڑی رقم ادا کرکے آتے ہیں اور پھر من پسند جگہ پر تعیناتی کے بعداصل رقم بمعہ سودکے لوٹ مار کرتے ہیں۔ دوسری جانب جنرل ضیاء کی غیر سیاسی انتخابات کے بعد اراکین اسمبلی کروڑوں اور اربوں روپے کے اسکیموں کا مالک بن گئے ہیں۔ان اسکیموں میں گوادر کو صاف اور پینے کا پانی فراہم کرنے کے لیے کھارے پانی کو میٹھا بنانے کے دوپلانٹ لگائے گئے، دونوں پلانٹ پر اربوں روپے خرچ ہوئے۔ آج دن تک ان دو پلانٹوں سے گوادر کے باشندوں کو ایک گلاس پانی بھی نہیں ملا۔ وہ ساری رقم غبن ہوگئی ۔علمائے کرام نے دعائیں پڑھ کر وہ دولت ہضم کرلی، آج دن تک ان سے پوچھ گچھ نہیں کی جارہی ۔ گوادر میں قیامت صغریٰ کا منظر ہے، لوگ اپیل کررہے ہیں جب گوادر آئیں ہمارے لیے پینے کا پانی تحفہ میں لائیں۔ اگر 10سال پہلے یہ دو پلانٹ کام شروع کرتے تو گوادر کے لوگوں کو مشکلات کا سامنا کرنا نہیں پڑتا۔ آج تک کسی بھی وزیر کے خلاف تحقیقات کا آغاز نہیں کیا گیا اور نہ ہی مستقبل قریب میں اس کی توقع ہے۔ وجہ یہ ہے کہ ریاستی ادارے صرف مخالفین یا وہ عناصر جن کو وہ پسند نہیں کرتے، کے خلاف کارروائی کرتے ہیں۔ نوکر شاہی اپنے اثاثوں کا دفاع کررہی ہے، جب تک موجودہ نظام قائم ہے اس وقت تک نوکر شاہی کے اثاثوں کا تحفظ جاری رہے گا ۔رائے عامہ کی کوئی حیثیت نہیں، چاہے گوادر اور اس کے گرد و نواح کے شہریوں کو پانی پینے کو ملے یا نہ ملے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ احتساب کا نظام صوبوں کے حوالے کریں کیونکہ صوبائی حکومتیں کسی حد تک عوام کے سامنے جوابدہ ہیں مگر وفاقی اداروں کا تعلق عالم بالا سے ہے۔ ان سے صرف قیامت کے دن پوچھ گچھ کی جاسکتی ہے پہلے نہیں۔ اس لئے صوبے ہی زمیں پر احتساب کریں گے وفاق نہیں۔