لندن: بلوچ قوم دوست رہنما حیر بیار مری نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ پاکستان نے 27مارچ 1948 کو بلوچ قومی ریاست کی آزاد حیثیت، خود مختاری، علاقائی سالمیت اور سیاسی و معاشی آزادی کو بزور جبر و طاقت سلب کرکے اور بلوچستان پر جبری قبضہ کر کے جس مجرمانہ جارحیت کا ارتکاب کیا تھا۔ اس وقت سے تاحال یہ ننگی جارحیت، جبر و استبداد اور وحشیانہ تشدد بلوچ قوم کے فرزندوں پر جاری ہے۔ وحشیانہ ذہنیت کے حامل حکمران فضائی طاقت اور وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار استعمال کرتے ہوئے بلوچ قوم کے فرزندوں کو نشانہ بنانے، بلوچ آبادیوں کو تاخت و تاراج کرنے، لوٹ مار کے ساتھ ساتھ گھروں کو جلانے کے علاوہ بلوچ سیاسی کارکنوں، اہل دانش، صحافیوں اور بلوچ فرزندوں کو ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے شہید کر رہا ہے۔ ساتھ ہی اغواء نما گرفتاریوں کے ذریعے بلوچوں کو لاپتہ کرکے ان کی تشدد زدہ مسخ لاشیں بلوچستان کے طول و عرض میں پھینک کر انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کیا جارہا ہے ۔ اب تو حکمران اپنی وحشیانہ تشدد و بلوچستان میں استبدادی پالیسیوں کو اس حد تک بڑھا چکا ہے کہ بلوچ خواتین اور بچوں کو بھی اغواء نما گرفتاری کے بعد لاپتہ کر رہا ہے۔ فورسز کا یہ انسانیت سوز عمل و مظالم نہ صرف انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں اور عالمی قوانین کے تحت مجرمانہ حملوں کے زمرے میں آتا ہے، بلکہ طاقت کے گھمنڈ میں عالمی قوانین کی سنگین ترین تذلیل بھی کر رہا ہے۔ بلوچ قوم دوست رہنما نے مزید کہا کہ اس مجرمانہ فعل و عمل کو دیکھنے کے باوجود نہ صرف عالمی برادری، اقوام متحدہ، بلوچ قوم کے ہمسایہ ممالک اور عرب و خلیجی ریاستوں نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے، بلکہ ایسے لگتا ہے کہ انہوں نے بلوچ مسئلہ کو نظر انداز کر رکھا ہے۔ عرب ممالک کی بلوچستان کے مسلے پر خاموشی کے حوالے سے حیربیار مری نے کہا کہ یہ بات نہیں کہ عرب ممالک بلوچستان کے مسلے کے بارے نہیں جانتے یا پھر بلوچستان سے واقف نہیں ہیں بلکہ وہ تلور کی شکار کے لیے ہر سال بلوچستان آتے ہیں اور بلوچستان کے چپے چپے سے واقف بھی ہیں لیکن پھر بھی انہیں بلوچ قوم پر مظالم دکھائی نہیں دیتا جو کہ ہمارے لیے حیران کن ہے۔ اسی خطے کی ممالک کی خاموشی سے حکمرانوں کو مزید بلوچوں پر ظلم و جبر کرنے کا موقع مل رہا ہے۔ حالانکہ جب روہنگیا، فلسطین، کشمیر اور دیگر ممالک میں مسلمانوں کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہوتی ہیں۔ تو ان کی ہلاکتوں کے واقعات کو خلیجی ریاستیں اور عرب ممالک بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں۔ OIC میں قراردادیں پیش کی جاتی ہیں۔ حتی کہ اقوام متحدہ کے فلور و دیگر عالمی فورمز پر آواز اٹھایا جاتا ہے۔ لیکن جب پاکستان انسانی حقوق کو پامال کرتے ہوئے اس سے بھی زیادہ جبر و استبداد بلوچ قوم پر کرتا ہے، اپنے تشکیل دیئے گئے ڈیتھ اسکواڈز کے کے ذریعے بلوچ سیاسی و سماجی کارکنوں کو اغواء و شہید کرکے ان کو اجتماعی قبروں میں دفناتا ہے، اپنے پروردہ مذہبی شدت پسندوں کے ذریعے بے گناہ انسانوں کی زندگیوں سے کھیلتا ہے، بلوچ فرزندوں کو ڈیتھ اسکواڈز اور فورسز کے ذریعے اغواء کرکے عقوبت خانوں میں سنگین ترین تشدد کا نشانہ بناتا ہے، ان کی تشدد زدہ مسخ لاشوں کو ویرانوں میں پھینکتا ہے، بلوچ علاقوں میں فضائی اور زمینی فورسز کے ذریعے تباہی پھیلاتا ہے، اور خواتین و بچوں کو اغواء کرکے لاپتہ کر دیتا ہے۔ تو یہی ممالک مصلحت کا شکار ہو کر خاموشی اختیار کر لیتے ہیں۔ پاکستان کے حوالے سے ان کا یہ مصلحت آمیز رویہ کیا معنی رکھتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ معاہدات مذہب کی بنیاد پر نہیں بلکہ قوموں کے درمیان ہوتی ہیں۔ کیوں کہ کسی بھی سرزمین کا مالک قوم ہی اپنے معاشرتی رجحانات کو بہتر سمجھتا ہے۔ بلوچ ایک خوددار قوم ہے۔ جو احسانات کی پاسداری کرنا جانتا ہے۔ ہم بلوچ قومی تحریک آزادی کی جدوجہد کے دوران اس کی حمایت کرنے والے اپنے خیرخواہوں کے احسانات کو کبھی بھی فراموش نہیں کر سکتے ہیں۔ ہم بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی، امریکی کانگریس کے ممبر ڈانا روبارکر، سابق افغان صدر حامد کرزئی اور دیگر خیر خواہوں کی بلوچ قومی تحریک آزادی کی جدوجہد کی حمایت اور بلوچستان کی آزادی کو خطے میں پائیدار امن اور استحکام کے حوالے سے دیکھنے کے نقطہ نظر کو قابل ستائش عمل سمجھتے ہیں۔بلوچ قوم دوست رہنما حیربیار مری نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ پاکستان نے چین کے ساتھ گٹھ جوڑکرتے ہوئے بلوچستان کے وسائل کو مال غنیمت سمجھ کر ان کو لوٹ رہا ہے اب دونوں ممالک باہمی میل جول اور مُرافقت سے اس لوٹ مار اور ڈکیتی میں خطے کے باقی ممالک کو بھی شامل کرنے کی کوششیں کررہے ہیں ۔بلوچ رہنما نے کہا کہ بلوچستان کی آزادی سے نہ صرف ہمسایہ ممالک میں پاکستانی دخل اندازی کم ہوگا بلکہ آزاد بلوچستان خطے کی امن اور ترقی کے لیے ایک مضبوط اقتصادی مرکز ہوگا جو کہ تمام ہمسایہ ممالک میں اقتصادی ترقی کے لیے کردار ادا کر سکے گا۔ کیونکہ بلوچ قوم کی تاریخ رہا ہے کہ انہوں نے ہمیشہ بلوچستان میں رہنے والے تمام اقلیتوں اور مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کو مشکل حالات میں تحفظ دیا اور ان کے ساتھ ہمیشہ برابری کا سلوک کیا چاہے وہ کسی قوم سے تعلق رکھتے ہوں نہ صرف بلوچستان میں بلکہ بلوچ قوم نے بیرونی مداخلت کی صورت میں ہمیشہ اپنے ہمسایہ ممالک کا ساتھ دیا اور ان کے شانہ بشانہ کھڑا رہا ۔