|

وقتِ اشاعت :   January 20 – 2017

ملک بھر میں مردم شماری کے اعلان کے بعدبلوچستان میں تمام بلوچ سیاسی جماعتوں اور شخصیات کی جانب سے شدید تحفظات کااظہارکیاجارہا ہے اس کے باوجود کہ مردم شماری انتہائی ضروری ہے کیونکہ بلوچستان میں مردم شماری نہ ہونے کی وجہ سے این ایف سی ایوارڈ میں اس کا حصہ بہت کم مل رہا ہے اور بلوچستان ترقی کے عمل میں دیگر صوبوں کی نسبت بہت پیچھے رہ گیا ہے ۔لیکن مردم شماری کی مخالفت کی وجہ بھی کافی وزن رکھتا ہے کیونکہ بلوچستان میں لاکھوں کی تعداد میں غیرملکی مہاجرین موجود ہیں جنہوں نے قومی شناختی کارڈ سمیت دیگر دستاویزات بنائے ہیں جس کی وجہ سے بارہاعالمی برادری میں پاکستان کی بدنامی اس وجہ سے ہوئی کیونکہ یہی غیر ملکی مہاجرین دہشت گردی اور دیگر غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث پائے گئے اور پاکستانی شناختی کارڈ کی وجہ سے بدنامی پاکستان کی ہوئی۔ اس کے علاوہ اب تک بلوچستان میں جتنے بڑے دہشت گردی کے واقعات رونما ہوئے ہیں اس کے پیچھے غیرملکی باشندے ملوث رہے ہیں مہاجرین نہ صرف بلوچستان کی سیاست، معیشت بلکہ امن وامان کیلئے بھی بڑا مسئلہ بن رہے ہیں۔ بلوچستان کے مختلف اضلاع میں اس وقت غیر قانونی طریقے سے لاکھوں افغان مہاجرین رہ رہے ہیں اس حوالے سے ایک قابل ستائش کام موجودہ حکومت نے سر انجام دیا جس نے بعض مہاجرین کے شناختی کارڈ بلاک کردیے ہیں اور اب تک یہ عمل جاری ہے۔ بلوچستان کی پشتون سیاسی جماعتیں اس وقت مردم شماری کی حمایت کررہی ہیں مگر اکثریت جو بلوچ ہیں ان کی نمائندہ سیاسی جماعتیں اس مردم شماری کی سخت مخالفت کر رہے ہیں ۔ ان کا مؤقف ہے کہ افغان مہاجرین کی موجودگی میں شفاف طریقے سے مردم شماری ممکن نہیں لہذا اس کی حمایت کسی صورت نہیں کی جائے گی اس مخالفت میں اس وقت موجودہ حکومت میں شامل جماعتیں بھی شامل ہیں جو مہاجرین کی موجودگی میں مردم شماری نہیں چاہتے۔ بلوچستان اس وقت ملک کیلئے انتہائی اہم صوبہ بن چکا ہے کیونکہ سی پیک منصوبہ ترقی کے کنجی کی شکل اختیار کرچکا ہے ، وفاقی حکومت بھی اس اہم اور حساس نوعیت کے معاملے پر غور کرے کہ بلوچستان میں مردم شماری کیلئے کس طرح ماحول کو سازگار کیاجاسکے اور غیر قانونی تارکین وطن کو جلد باعزت وطن واپس بھیجا جاسکے۔ اس سے قبل بھی مہاجرین کی واپسی کے حوالے سے تاریخ مقرر کی گئی تھی مگر اس معاملے کو مزید آگے لے جایاگیا جو کہ مناسب فیصلہ نہیں۔ دنیا بھر میں مہاجرین کیلئے قوانین موجود ہیں مگر ہمارے ہاں بدقسمتی سے کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں جس کی وجہ سے ہمارا معاشرہ عدم توازن کا شکار ہوتا جارہا ہے جس کے بھیانک نقصانات سامنے آنے کا اندیشہ ہے۔ سب سے بڑی ذمہ داری حکومت کی بنتی ہے کہ وہ بلوچستان کی صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے ہنگامی بنیادوں پر مہاجرین کی واپسی کو یقینی بناتے ہوئے اقدامات اٹھائے جو وقت اور حالات کا تقاضہ ہے اگر اس معاملے پرسنجیدگی کے ساتھ غور نہیں کیا گیا تو ملکی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگا۔ فوری طور پر اس سے نمٹنے کیلئے سیاسی قیادت ملکی مفادات کو مد نظر رکھتے ہوئے مہاجرین کی واپسی کو یقینی بنائے تاکہ سیاسی، معاشی اور امن وامان کے حوالے سے جن مسائل کا سامنا ہے اس پر قابوپایاجاسکے ۔ بلوچستان کی سیاسی جماعتیں اس وقت شدید زور دے رہی ہیں کہ غیرملکی مہاجرین کی موجودگی اور بلوچستان میں حالات کی وجہ سے ملک کے دیگر علاقوں میں نقل مکانی کرنے والے افراد کو جلد واپس بلاکر پھر اس مسئلے کو زیر غور لایاجائے دیگر صورت میں مردم شماری کی حمایت نہیں کرینگے ۔ اس کیلئے وفاقی حکومت اپنا کردار ادا کرتے ہوئے بلوچستان کے اس اہم مسئلے پر غور کرتے ہوئے مردم شماری کی مدت کو آگے بڑھاتے ہوئے فوری غیر قانونی تارکین وطن کی واپسی کو یقینی بنائے اور مہاجرین کے سرکاری دستاویزات بلاک کرکے ان کے قیام کی مدت میں مزید توسیع نہ کرے بلکہ اس پرعملدرآمد کو یقینی بنائے تاکہ بلوچستان میں پائی جانے والی بے چینی کو دور کیاجاسکے اور اس کے بعد خوش اسلوبی سے بلوچستان میں شفاف طریقے سے مردم شماری کرائی جاسکے۔ فی الوقت بلوچستان میں مردم شماری کیلئے ماحول بہتر نہیں اور اس پر شدید مخالفت اور تحفظات موجود ہیں جن کو دور کرنے کی ضرورت ہے اور بلوچستان میں ایسی مردم شماری بھی کیونکر قابل قبول اور قابل اعتبار ہوگی جس کی اکثریت مخالفت کرے ۔