|

وقتِ اشاعت :   January 20 – 2017

جدید پشتو ادب ہو یا پھر پشتونوں کی سیاسی اور ثقافتی حتیٰ کہ سماجی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر بحث یہ ہر چیزباچاخان کے بغیر نامکمل اور ادھوری ہے فخر افغان ، سرحدی گاندھی ، بڑے خان اور دیگر ناموں سے معروف خان عبدالغفار خان جن کی آج 29ویں برسی منائی جارہی ہے ایک ایسا سیاسی رہنماء جس نے زندگی بھر نچلے اور پسے ہوئے طبقات کی بات کی جس نے مظلوم کی آواز اٹھانے کو فرض کا درجہ دیا اور جس نے ظالم کے خلاف آواز اٹھانے کا سبق مرتے دم تک دیا ۔ایک ایسا پشتون جس نے ’’ پشتونولی ‘‘ کے تمام تقاضوں کو اپنے عمل سے پورا کیا۔ ایک ایسا رہبر جس نے اندھیروں میں روشنی کی راہ دکھائی اور جس نے اپنے پیروکاروں کو عدم تشدد کا بے مثال سبق پڑھا یا۔ پڑھا یا بھی کس کو؟ ان لوگوں کو جن کے لئے تشدد پر اترنا معمول کی بات تھی ایسے لوگ جو پیدا ہونے کے بعد پہلی آواز بندوق کی سنتے ہیں ان کے کاندھوں سے بندوق اتار کر انہیں عدم تشدد کے پرخار راستے پر ڈالنا باچاخان ہی کی تربیت کا نتیجہ ہے جبھی تو کہا جاتا ہے کہ جب تک اس دنیا میں ایک بھی پشتون زندہ ہے باچاخان کا نام بھی گونجتا رہے گا۔ فخر افغان باچاخان آج سے لگ بھگ127سال قبل 1890ء کوموجودہ چارسدہ کے علاقے ہشتنگر کے چھوٹے سے گاؤں اتمانزئی میں خان بہرام خان کے ہاں پیدا ہوئے۔بہرام خان اپنے علاقے کے خان تھے بہرام خان کے والد سیف اللہ خان عملی طور پر انگریز کے خلاف جنگ لڑ چکے تھے سیف اللہ خان کے صاحبزادے خان بہرام خان بھی انگریزوں کے مخالف تھے اور زندگی بھر ان سے کوئی تعلق نہ رکھا باچاخان نے ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں کی مسجد میں حاصل کی قرآن مجید ختم کیا تو اس پر بہرام خان نے پورے گاؤں میں مٹھائیاں بانٹیں پھر انہیں مزید تعلیم کیلئے مدرسے میں بھیج دیا گیا اپنی آپ بیتی میں باچاخان بابا لکھتے ہیں کہ ملا ان مدرسوں میں پڑھنے کے لئے لوگوں کو جانے نہیں دیتے تھے وہ کہتے تھے کہ دنیا کا علم کفر ہے چنانچہ انہوں نے اپنے شاگردوں اور ان پڑھ لوگوں کو یہ شعر یاد کرا رکھے تھے جو وہ گلی کوچوں اور بازاروں میں بڑے جوش سے اونچی آواز میں پڑھتے کہ سبق د مدرسے وائی دپارہ د پیسے وائی جنت کی بہ ئے زائے نہ وی دوزخ کی بہ گھسے وہی یعنی ’’ جو لوگ مدرسے میں پڑھتے ہیں وہ پیسوں کے لئے پڑھتے ہیں ان کی جگہ جنت میں نہیں ہوگی بلکہ یہ لوگ دوزخ میں دھکے کھائیں گے ۔ باچاخان 8سال کے تھے جب انہیں مدرسے بھیجا گیا اور وہیں سے ان کے خیالات میں وسعت آنے کا سلسلہ شروع ہوا ۔ اور وہ قرب و جوار کے حالات وواقعات کا ایسا مشاہدہ کرنے لگے جو ان کی عمر کے عام بچوں کے لئے مشکل ہی نہیں ایک طرح سے ناممکن بھی تھاادھر ان کا مدرسے میں داخلہ ہوا اور وہاں ان کے ذہن میں قائم اندھے اعتماد اور اعتقاد کے بت ایک کرکے دھڑام سے گرنے لگے۔ دیکھا جائے توہماری پسماندگی کی سب سے بڑی وجہ اندھا اعتماد اور اندھا اعتقاد بھی ہے جس سے ہر ممکن گریز کرنا چاہئے فخر افغان باچاخان زندگی بھر اپنے پیروکاروں کو یہی درس دیتے رہے کہ وہ کسی پر اندھا اعتماد اور اندھا اعتقاد نہ کریں بلکہ جو بھی راہ چنیں سوچ سمجھ کر قدم اٹھائیں اور زندگی بھر حق اور سچ کا ساتھ دیں بھلے اس کے لئے کتنی بڑی قربانی ہی کیوں نہ دینی پڑی ۔ باچاخان نے مدرسے میں داخلہ لیا تو عام عوام میں ان کے خلاف پروپیگنڈہ شروع ہوگیا مگریہ چپ چھپا کر کیا جانے والا پروپیگنڈا تھا کیونکہ وہ خان بہرام خان کے بیٹے تھے اور بہرام خان کے خلاف کھل کر میدان میں آنا بہرحال تعلیم کے اس وقت کے مخالفین کے لئے ممکن نہ تھا۔باچاخان پھر مشن سکول گئے وہاں سے مزید تعلیم کے لئے علی گڑھ کالج گئے اور تعلیم مکمل کرکے واپس علاقے میں آگئے اب وہ نوجوان تھے چاہتے تھے کہ اعلیٰ تعلیم کے لئے ہندوستان سے باہر جائیں ان کے والد نے بھی حامی بھری اور چاہتے تھے کہ انہیں اعلیٰ تعلیم کے لئے انگلینڈ بھجوائیں مگر والدہ نے اجازت نہیں دی اور یوں باچاخان اعلیٰ تعلیم کے لئے انگلینڈ نہیں جاسکے وہ یہیں رہ گئے اور شاید یہیں سے ان کی زندگی نے ایک نیا رخ اختیار کرنا شروع کیاسیاسی سوجھ بوجھ بچپن ہی سے تھا ابھی جوان بھی نہیں ہوئے تھے کہ 1901ء میں انگریزوں نے فرنٹیئر کرائمزریگولیشن ایکٹ کے نا م سے نیاقانون نافذ کیا جسے باچاخان نے اپنی کتاب میں ’’ کالے قانون ‘‘ سے تعبیر کیا ہے اور کہا ہے کہ انگریزوں نے پشتونوں کے خلاف اس قانون کا بہت برے طریقے سے استعمال کیا اور ان کی اجتماعی زندگی انفرادی زندگی میں بدل دی اس قانون کے تحت انگریزسرکار اپنے ناپسندیدہ شخص کے خلاف ایک فرضی مقدمہ بناتی اور پھر اس پر جرگہ بٹھادیتے جس میں انہی کے لوگ شامل ہوتے اور ملزم کو چودہ سال تک کی سزاسنادیتے تھے۔ اعلیٰ تعلیم کے لئے ان کا انگلینڈ جانے کا خواب پورا نہیں ہوا تو وہ یہیں وطن میں رہ گئے اور ٹھان لی کہ پشتونوں کی حالت زار بدلنے کے لئے اپنی زندگی وقف کردیں گے۔1913ء میں وہ پہلی بار مسلم لیگ کے جلسے میں شرکت کے لئے آگرہ گئے یہاں سے ان کی سیاسی زندگی شروع ہوئی مگر یہ ایک ایسے نوجوان سیاسی کارکن کی زندگی تھی جن کے ارد گرد مسائل ہی مسائل تھے جس کی قوم جہالت اورپسماندگی کے اندھیرے میں جی رہی تھی باچاخان بابا چاہتے تھے کہ اپنے لوگوں کے لئے کچھ ایسا کریں کہ ان کے مسائل بھی حل ہوں اور ان کی عزت نفس بھی بحال رہے اس بیچ وہ پشتونوں کو علم کی جانب راغب کرنے کاتبلیغی کام کرتے رہے1918ء میں ان کی کوششوں سے پشتونوں کے جلسے جلوسوں کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوا اور پھر انہیں گرفتارکرلیا گیا رہائی ہوئی تو پھر جدوجہد کا سلسلہ وہیں سے شروع کیا جہاں سے ٹوٹا تھا1920ء میں وہ دہلی میں خلافت کمیٹی کی آل انڈیا کانفرنس میں شریک ہوئے 1921ء میں دوستوں کی مدد سے اتمان زئی میں ایک آزاد ہائی سکول کی بنیاد رکھی اور انجمن اصلاح الافاغنہ کے نام سے ایک جماعت قائم کرلی ۔جو پہلا آزاد سکول قائم کیا اس کے لئے وسائل بالکل نہیں تھے حتیٰ کہ اساتذہ کی تنخواہوں کا بھی کوئی بندوبست نہیں تھا اس لئے خود اس سکول میں بچوں کو پڑھاتے رہے 1928ء میں انہوں نے ایک اور تاریخی اقدام اٹھاتے ہوئے ’’ پشتون ‘‘ کے نام سے اخبار کا اجراء کیا جو آج بھی میگزین کی صورت چھپتا ہے تاہم 90برسوں کے دوران پشتون نے کئی نشیب و فراز دیکھے اور یہ کبھی بند کبھی جاری ہوتا رہا دیکھا جائے تو پشتون رسالے نے پشتونوں کو علم و ہنر کی جانب راغب کرنے کاتاریخی کام نہایت ہی اچھے طریقے سے کیا ہے اور ساتھ ہی ساتھ پشتوزبان و ادب کے لئے بھی پشتون کی بہت زیادہ خدمات ہیں ۔ پشتون کے اجراء کے بعد فخر افغان باچاخان نے بعض پشتون نوجوانوں کی درخواست پر خدائی خدمت گاری کی تحریک شروع کی باچاخان خدمت خلق کو فلاح اور کامیابی کا راستہ سمجھتے تھے اسی لئے زندگی بھر لوگوں کی خدمت کرتے رہے ۔ خدائی خدمتگاری کی تحریک اپنے وقت میں اس خطے کی ایک بہت ہی زیادہ کامیاب اور فعال تحریک تھی جس کے کارکنوں کی تعداد اس وقت لاکھوں میں تھی ۔ تحریک میں شامل ہونے والے ہر رضا کار کو سب سے پہلے اللہ تبارک و تعالیٰ کو حاضر و ناظر جان کر یہ اعلان کرنا ہوتا تھا کہ ’’میں خدائی خدمت گار ہوں میں کسی قسم کے فائدے کے بغیر اپنی قوم کی خدمت کروں گا ،میں اپنے ساتھ ہونے والی کسی بھی ناانصافی کا ذاتی طو رپر بدلہ نہیں لوں گا اور اس بات کا خیال رکھوں گا کہ میرے افعال کسی بھی شخص کے لئے بوجھ یا تکلیف کا باعث نہ بنیں میں عدم تشدد کا داعی ہوں اور اس راستے پر گامزن رہتے ہوئے میں ہر قسم کی قربانی دینے کو تیار رہوں گا میں انسانوں کی خدت کروں گا میری اس خدمت کا دائرہ کار کسی بھی صورت کوئی مذہب یا مخصوص قبیلہ نہیں ہوگا بلکہ ہر انسان کی خدمت میرا فرض ہوگا میں کسی عہدے کا خواہشمند نہیں رہوں گا اور مقامی سطح پر بنائی گئی اشیاء استعمال کرنے کا پابند رہوں گا۔اس تحریک کا بنیادی مقصد فلاحی اور سماجی تھا مگر بنتے بگڑتے حالات ، برطانوی سامراج کے منفی ہتھکنڈوں ، پشتون دشمن اقدامات نے دیکھتے ہی دیکھتے اس تحریک کو ایک ایسے پلیٹ فارم میں بدل دیا جس سے دیکھتے ہی دیکھتے لاکھوں لوگ وابستہ ہوگئے اور یہ پوری دنیا میں پشتونوں کی شناخت بننے لگی ان لاکھوں خدائی خدمتگاروں نے یہ عہد کیا تھا کہ وہ اپنے ہاتھ اور زبان سے خدا کی مخلوق کو کوئی ضرر نہیں پہنچائیں گے دوسروں کے لئے بھی وہی چیز پسند کریں گے جو انہیں اپنے آپ کے لئے پسند ہوگی ۔ہر وہ رسم رواج اور روایت جس سے قوم اور وطن کو نقصان پہنچتا ہو خدائی خدمتگار ان کے خلاف تبلیغ کریں گے کوئی خدائی خدمتگارزندگی بھر کسی کی غیبت کرے گا اور نہ ہی جھوٹ بولے گاکسی ظالم کی مدد اور حمایت نہیں کرے گا بلکہ ہرخدائی خدمتگار مظلوم کی حمایت کرے گاہر خدائی خدمتگار سادہ زندگی گزارنے کا پابند ہوگابے کاری سے پرہیز کرے گا اور اپنے لئے رزق حلال کمائے گاہرخدائی خدمتگار اکثریت کا فیصلہ تسلیم کرے گااور اس پر عمل کرنے کا پابند ہوگا اور سب سے اہم یہ نکتہ کہ کوئی بھی خدائی خدمتگارمنصب اور پیسے کے لئے قوم اور وطن کا سودا نہیں کرے گااور قوم و وطن کی خدمت کے لئے کسی قربانی سے دریغ نہیں کر ے گا۔ باچاخان اپنی آپ بیتی میں خدائی خدمتگاری کے باب میں لکھتے ہیں کہ ’’اصلاح الافاغنہ کے نام سے ہماری ہماری ایک جماعت پہلے ہی موجود تھی یہ جماعت ہمارے صوبے میں تعلیم پھیلانے کاکام کررہی تھی ہمارا خیال تھا کہ یہ جماعت تو یہی کام کرتی رہے کیونکہ یہ کام بڑا ضروری تھا لیکن ہماری قوم میں اور بھی سہی سی سوشل کمزوریاں اور عیب ہیں اور سمای طو رپر ہم بہت پسماندہ ہین ان خامیوں کو دور کرنے کے لئے ہمیں ایک الگ سوشل تحریک جاری کرنی چاہئیں چنانچہ ہم نے ’’خدائی خدمت گاری ‘‘ جو ایک سوشل تحریک تھی کی بنیاد رکھ دی اس تحریک کا سیاست سے کچھ بھی تعلق نہیں تھا لیکن فرنگیوں کے ظلم و تشدد نے اس کا تعلق سیاست سے بھی پیدا کردیا ‘‘ خدائی خدمت گاروں اور خدائی خدمت گاری کی تحریک سے انگریز سرکار کس قدر خوفزدہ تھی اس کا اندازہ فقط اس ایک بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 1929ء میں جب اس کی داغ بیل ڈالی گئی دیکھتے ہی دیکھتے انگریز سرکار نے تحریک کے تمام رہنماء صوبہ بدر کردیئے تحریک پھر بھی جاری رہی تو گرفتاریوں کا سلسلہ شروع ہوا 1929ء سے1931ء تک پانچ ہزار خدائی خدمتگارگرفتار کئے گئے جبکہ اسی عرصے کے دوران کانگریس کے گرفتار کئے گئے کارکنوں کی تعداددو ہزار تھی خدائی خدمتگاروں کو گرفتار کرنے کے بعد انہیں بد ترین اذیتیں بھی دی جاتی تھیں کئی کارکنوں کی داڑھیاں مونڈھی گئیں فقط اس لئے کہ انہیں نفسیاتی طو رپرتوڑا جاسکے اور انہیں باچاخان کی پیروکاری سے روک کر عام پشتونوں کی طرح جہل کی زندگی جینے پر مجبور کیا جاسکے مگر باچاخان کے ان کارکنوں کو توڑا نہیں جاسکا یہی۔خود باچاخان زندگی بھر پشتواورپشتونوں کے لئے جیل جاتے رہے انہیں طرح طرح کے مصائب کا سامنا کرنا پڑاآدھی زندگی انہوں نے جیلوں میں گزاری مگر ان کے پایہ استقلال میں کوئی لغزش نہیں آئی بلکہ سوا سو سال پہلے روشن ہونے والے اس چراغ کی روشنی آج بھی اندھیرے میں ہاتھ پیر مارنے والے سیاسی کارکنوں اور بالخصوص ہر پشتون کو راہ دکھارہی ہے ۔ باچا خان کی فکر ، باچاخان کی شخصیت ،باچا خان کے افکار پر اب تک درجنوں کتابیں لکھی جاچکی ہیں مگر حقیقت یہی ہے کہ باچاخان کی شخصیت ، باچاخان کے افکار اور باچاخان کی فکر کی ہمہ جہت تعریف اب بھی نہیں ہوئی ان کا حق اب بھی ادا نہیں ہوا اور شاید کبھی ہو بھی نہ پائے کیونکہ باچاخان اس پورے خطے کے نمایاں ترین سیاسی رہنماؤں میں سے ایک ہیں جنہوں نے جو کہا وہ کیا قول و فعل کا تضاد ان کی شخصیت کو چھو کر بھی نہیں گزرا زندگی بھر طبقاتی شعور اجاگر کیا زندگی بھر سماجی اونچ نیچ اور جہل کی فرسودہ روایات کو پاؤں تلے روندھتے رہے اور اپنے عمل سے ثابت کرتے رہے کہ حقیقی رہنماء وہی ہوتا ہے جو عام کارکن کی زندگی جیتا ہے انہوں نے یہ بھی ثابت کیا کہ پشتون دنیا کی پرامن ترین قوم ہے جو ہرطرح کے مصائب و مشکلات کامقابلہ خندہ پیشانی سے کرنے کی اہلیت رکھتی ہے باچاخان جدید پشتون نیشنلزم کا ایک ایسا سمندر ہے جو کسی دریا میں جا کر نہیں گرتا البتہ اس سمندر سے دریاؤں اور ندیوں کا نکلنا کوئی تعجب خیز بات نہیں ۔ باچاخان حقیقی معنوں میں پشتونوں کی شناخت ہیں بین الاقوامی سطح پر وہ پشتونوں کا حوالہ ہیں جن کی شخصیت کے مختلف پہلو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزید کھل کر سامنے آرہے ہیں آج اس خطے کے جو حالات ہیں فخرافغان باچاخان کی فکر انگیز شخصیت نے ان حالات کا ادراک آج سے سو سال پہلے ہی کرلیا تھا جبھی تو انہوں نے پشتونوں کوخبردار کیا کہ تشدد مسئلے کا حل نہیں بلکہ مسائل کی مزید گھمبیرتا کا موجب تشددہے اس لئے تشدد چھوڑ کر عدم تشدد کی راہ اپنائی جائے تشدد سے تشدد کا جنم ہوتا ہے اور عدم تشدد سے برداشت اورصبر وتحمل کے مادے کی پرورش ہوتی ہے جو انسانیت کی معراج بھی ہے اور جدید ترقیاتی معاشروں کی اساسی بنیاد بھی ۔پس آج کا دن نہ صرف پشتونوں بلکہ ہر انسان سے اس بات کا تقاضہ کرتا ہے کہ برداشت اور رواداری کی راہ پر چلتے ہوئے ایک ایسے سماج کی تشکیل کے لئے ہم سب اپنا کردار ادا کریں جہاں انسان اور انسانیت کی قدر ہو۔