پاکستان اپنے قیام کے70سال پورا کرچکا ہے ۔ یہ عرصہ کسی بھی ریاست کو سنبھلنے اور ترقی یافتہ بننے کے لیے کافی ہے کیونکہ اس کی زندہ مثالیں وہ ممالک ہیں جنہوں نے پاکستان کے بعد آزادی حاصل کی اور بہتر طرز حکومت سے اپنے مسائل حل کئے اور ترقی کی دوڑ میں ہم آج ان کر گرد کو بھی نہیں پہنچ سکتے۔باقی مسائل تو ایک طرف ،سب سے اہم اور بنیادی چیز تعلیم پر بھی ہم وقت گزاری سے کام لیتے رہے۔ اتنا عرصہ گزرنے کے بعد بھی ملک میں یکساں اور منصفانہ نظام تعلیم رائج نہ ہوسکا۔ بڑے اور امیر گھرانوں کے افراد اپنے بچوں کو انگریزی میڈیم اور اعلیٰ ترین درجے کے اسکولوں میں پڑھاتے ہیں جبکہ عام لوگوں کے بچے سرکاری اور غیر سرکاری کالے پیلے اسکولوں میں تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ افغانستان کی خانہ جنگی کے ساتھ ساتھ اور خصوصاً روسی افواج کے افغانستان کے قبضے کے بعد ریاست اور ریاستی اداروں نے امریکہ، سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک کے تعاون سے راتوں رات ہزاروں دینی مدرسے قائم کردیئے جہاں پر رہنا سہنا اور تعلیم مفت اور تمام اخراجات نامعلوم ذرائع سے ان کو آج تک مل رہے ہیں۔ اس طرح سے ملک میں ایک تیسرا نظام تعلیم مذہبی ضروریات اور ملکی دفاع کی خاطر مسلط کردیا گیا۔ اب تین مختلف نظام تعلیم موجود ہیں، انگریزی نظام تعلیم صرف چند ایک بڑے شہروں تک محدود ہے جبکہ مدارس کا پورے پسماندہ اور غریب ترین علاقوں پر قبضہ کرادیا گیا اور ان کی رہنمائی بعض مذہبی اور جہادی تنظیمیں کررہی ہیں جو باعث تشویش ہے۔ بعض حضرات ان کو جہادی فیکٹریوں کا نام دیتے ہیں، گزشتہ سالوں جماعت الدعواۃ کے چند اسکول بند کیے گئے اس کے خلاف احتجاج کراچی پریس کلب کے باہر کیا گیا جس میں ننھے منے طلباء کے ساتھ ساتھ اساتذہ بھی شامل تھے۔ ادارے نے اس کی تردیدکی تھی کہ وہ جہاد کو ان تعلیمی اداروں میں فروغ دے رہاہے۔ جب ایک صحافی نے بچوں سے پوچھنا شروع کیا تو ایک کے بعد ایک نے کہا کہ وہ جہادی بننا چاہتے ہیں۔ بچوں کی یہ آوازیں بی بی سی اردو سروس کے ذریعے کروڑوں انسانوں نے خود سنیں، اس کے بعد احتجاج موخر کردیا گیا۔ اس پر پابندی بین الاقوامی اداروں نے لگائی تھی۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت تمام مدارس کواپنی تحویل میں لے اور حکومتی ذرائع سے ان کو چلائے تاکہ یہ جہادی فیکٹریاں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند ہوں اور ملک و قوم کو دہشت گردی سے چھٹکارا ملے۔ اس کے ساتھ صرف اور صرف ایک نظام تعلیم ہو اور غریبوں کے بچوں کے ساتھ امتیازی سلوک بند کیا جائے۔ ان کو بھی برابر کے مواقع ریاست فراہم کرے تاکہ انصاف کے تقاضے پورے ہوں۔ اس کے ساتھ ہی بلوچستان بھر میں بڑے بڑے اقامتی اسکول قائم کیے جائیں اور ان پر ضلعی انتظامیہ اور مقامی اداروں کا مشترکہ کنٹرول ہو تاکہ 100فیصد بچے اسکول کا رخ کریں، کوئی بچہ تعلیم سے محروم نہ ہو۔ اس کے لئے تمام اراکین اسمبلی پر یہ لازم ہو کہ وہ اپنے صوابدیدی یا نام نہاد ترقیاتی فنڈ سے سالانہ ایک اقامتی اسکول حکومت کی نگرانی میں قائم کریں گے تاکہ بلوچستان سے جہالت کا خاتمہ جلد سے جلد ممکن ہوسکے۔