اسلام آباد:سپریم کورٹ نے وزیراعظم کے وکیل سے میاں شریف کی وفات کے بعد وراثتی جائیداد کی تقسیم کی تفصیلات طلب کرنے کے ساتھ شاہد حامد سے مریم نواز کے نجی ٹی وی چینل کو دیئے گئے انٹرویو کی تفصیلات بھی طلب کرلیں ۔ بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ٹرسٹ ڈیڈ2006ء کی ہے جبکہ مریم نواز نے 2012ء کے انٹرویو میں کہا کہ ہمارا کوئی اثاثہ باہر نہیں ہے پتہ نہیں کہ میری یا گھر والوں کی پراپرٹی کہاں سے نکال لائے ہیں؟ اگر مریم نواز کے انٹرویو کی تفصیلات میں فرق ہے تو ہمیں بھی فراہم کیاجائے یہ ہمارے لئے بہت اہم ہے جائیداد سے متعلق بہتر معلومات شریف خاندان کے پاس ہیں ۔ کیس کی سماعت جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس اعجاز افضل ، جسٹس گلزار احمد ، جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل پانچ رکنی بینچ نے کی مریم نواز کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ مریم صفدر کی جانب سے جواب داخل کرادیا ہے اس پر میرے دستخط ہیں مریم صفدر نے مجھے مجاز ٹھہرایا ہے جس پر جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ میاں شریف کی وفات کے بعد ان کی جائیداد کا کیا بنا، شاہد حامد نے کہا کہ شریف خاندان میں اس حوالے سے کوئی جھگڑا یا تنازعہ نہیں ہے، جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ کیا ممکن ہے کہ وراثتی جائیداد کی تقسیم کے حوالے سے عدالت کو آگاہ کیاجاسکے جس پر شاہد حامد نے کہا کہ نواز شریف نے کاغذات نامزدگی میں کہا ہے کہ وہ والدہ کے گھر میں رہتے ہیں اگر کوئی ٹیکس ریٹرن جمع نہ کرائے تو 28ہزار جرمانہ عائد کرنا پڑتا ہے، جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ کیپٹن صفدر نے 2011 میں ٹیکس ریٹرن جمع نہیں کروایا ٹیکس ریٹرن جمع نہ کروانے کا کیا نتیجہ ہوگا اس پر شاہد حامد نے کہا کہ 2011ء سے پہلے کیپٹن صفدر کی تنخواہ سے ٹیکس کٹوتی ہوتی تھی ۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ آپ پر الزام ہے کہ کیپٹن صفدر نے گوشواروں میں اہلیہ کے اثاثے چھپائے اس پر شاہد حامد نے کہا کہ یہاں نااہلی یا ٹیکس چوری کا سوال نہیں ہے کیپٹن صفدر نے کاغذات نامزدگی کے مریم نواز کے گوشوارے لف کئے تھے جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ٹیکس ریٹرن فائل نہ کرنے پر کیا الیکشن کمیشن اور انکم ٹیکس ڈیپارٹمنٹ نے کوئی اقدامات نہیں کیا عدالت سے کیپٹن صفدر کی نااہلی کی استدعا نہیں کی گئی اس پر جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ کیپٹن صفدر کی ناہلی مانگی گئی ہے ،جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ٹیکس ریٹرن فائل نہ کرنے پر کیپٹن صفدر ایماندار نہیں رہے جس پر شاہد حامد نے کہا کہ ٹیکس ریٹرن فائل نہ ہونے پر نااہلی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ٹیکس کا معاملہ ایف بی آر کے دائرہ اختیار میں آتا ہے جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ کیپٹن صفدر کیخلاف ریفرنس الیکشن کمیشن میں زیر التواء ہے الیکشن کمیشن کو ریفرنس پر فیصلہ دینے کا مکمل اختیار ہے اگر ریفرنس میں یہی سوال اٹھایا گیا تو سپریم کورٹ مداخلت کیوں کرے سپریم کورٹ آرٹیکل 184/3 کے تحت متوازی کارروائی کیسے کرسکتی ہے جس پر شاہد حامد نے کہا کہ وزیراعظم کی نااہلی کے لئے ریفرنس بھی الیکشن کمیشن میں زیر التواء ہے عدالت ریفرنس خود چنے تو اس کی مرضی ہے جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ جب ایک متعلقہ بااختیار فورم ہے تو اس کے مقدمات ہم کیوں سنیں دیگر ادارے بھی ریاست نے آئین کے مطابق بنائے ہیں جس پر شاہد حامد نے کہا کہ وزیراعظم ہو یا عام شہری قانون سب کیلئے برابر ہے حقیقت یہ ہے کہ وزیراعظم نے خود کو احتساب کیلئے پیش کیا ہے کسی رکن اسمبلی کیلئے کیا طریقہ کار ہے جس پر شاہد حامد نے کہا کہ منتخب نمائندے کی نااہلی کیلئے رٹ دائر کی جاسکتی ہے جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ کیا سپریم کورٹ میں درخواستوں کے قابل سماعت ہونے پر اعتراض ہے کوئی ؟ جس پر شاہد حامد نے کہا کہ میں تو عدالتی سوالوں کے جواب دے رہا ہوں جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ کیا اس بنیاد پر سپریم کورٹ کارروائی نہ کرے کہ معاملہ الیکشن کمیشن میں زیر سماعت ہے فیصلہ الیکشن کمیشن کو کرنا ہے کہ معاملہ اس کے دائرہ اختیار میں آتا بھی ہے یانہیں انہو ں نے کہا کہ یوسف رضا گیلانی کیخلاف ریفرنس سپیکر نے مسترد کیا تھا تو معاملہ سپریم کورٹ آیا تھا ۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ وزیراعظم کی نااہلی کا کیس کس ہائی کورٹ میں زیر التواء ہے ؟ جس پر شاہد حامد نے کہا کہ سپیکر کے فیصلے کیخلاف اپیل لاہور ہائی کورٹ میں زیر التواء ہے ۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے ریفرنس اس کے دائرہ اختیار میںآتا ہے اس پرشاہد حامد نے کہا کہ ایک الزام پر ریفرنس دیگر فورم پر موجود ہیں جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ ہماری تشویش ہے کہ داد رسی کیلئے فورم قانون کے تحت موجود ہے اس کیس کا کیسے جائزہ لیں جس کیلئے دوسرے فورم موجود نہیں جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ آرٹیکل 63کے تحت سپیکر سے رجوع کیاجاسکتا ہے انہوں نے شاہد حامد سے سوال کیا کہ سپیکر کے ریفرنس خارج کرنے کی صورت میں کیا دوسرا شخص بھی سپیکر کے پاس داد رسی کیلئے جاسکتا ہے داد رسی کیلئے سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ سے براہ راست رجوع کرسکتے ہیں انہوں نے کہا کہ عدالت درخواستوں کو قابل سماعت قرار دے چکی ہے آپ اس معاملے پر عدالت کی معاونت کریں جس پر شاہد حامد نے کہا کہ بڑا اعتراض صرف عدالتی دائرہ اختیار پر ہے قابل سماعت پر مجھے کوئی اعتراض نہیں میرا موقف ہے میری بیرون ملک جائیداد نہیں لندن فلیٹ میرے بھائی کے ہیں میرے بھائی کا بھی یہی موقف ہے کہ لندن فلائٹ اس کے نام ہیں درخواست گزار کا اصرار ہے کہ بیرون ملک پراپرٹی کی میں مالک ہوں مجھے والد کی زیر کفالت بھی کہا جارہا ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے ایسا صرف اس لئے کہا جارہا ہے کہ میرے والد کو اس پراپرٹی معاملے میں ملوث کیا جاسکے مریم نواز کے وکیل نے مزید کہا کہ مریم نواز عام شہری ہیں یہ عوامی اہمیت کا معاملہ کیسے ہے جس پر جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ وزیراعظم کی حد تک معاملہ عوامی اہمیت کا ہے جسٹس گلزار نے کہا کہ مریم نواز کیخلاف سپریم کورٹ سے کوئی فیصلہ نہیں مانگا گیا جس پر شاہد حامد نے کہا کہ اگر فرض کرلیں کہ بیرون ملک جائیداد مریم نواز کی ہے تو پھر بھی کیا ہے ؟جس پر اعجاز افضل نے کہا کہ سوال یہ بھی ہے کہ عدالت متنازعہ حقائق پر فیصلہ دے سکتی ہے متنازعہ حقائق پر فیصلہ شواہد ریکارڈ کرنے سے ہوسکتا ہے ،شاہد حامد نے کہا کہ مریم نواز اپنے والد کی زیر کفالت نہیں ہے اگر زیر کفالت نہیں ہے تو مریم نواز کے ہوں بھی تو کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ الزام ہے کہ مریم نواز اپنے والد کی فرنٹ مین ہے اس پر شاہد حامد نے کہا کہ یہ تو درخواست گزار نے ثابت کرنا ہے بارے ثبوت شکایت کنندگان پر ہیں کیس کے حوالے سے آئے روز باہر ہونے والے انکشافات پر حیرت ہوتی ہے جو کاغذات پہلے دن سے عدالت کے پاس ہیں کبھی بی بی سی ، جرمن میڈیا اور آئی سی ایس جے سمیت دیگر غیر ملکی ادارے سامنے لارہے ہیں ۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ فریقین پہلے جواب میں قطری خط کا ذکر نہیں کیا ضمنی جواب میں قطری خط کا ذکر کیا گیا ہے پانچ نومبر کو تحریری بیان میں قطری سرمایہ کاری کا ذکر کیا گیا سات نومبر کو داخل تحریری جواب میں قطری خط کا ذکر نہیں تھا جسٹس عظمت نے مریم کے وکیل کی توجہ ایک ای میل کی جانب دلائی جس میں مریم نے2004ء میں تسلیم کیا کہ وہ نیلسن اور نیسکول کی بینفیشل مالک ہیں یہ دستاویز اب واضح کرتی ہیں۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ کیا ہم مریم نواز کے اصل دستخط جو اس دستاویز میں کئے گئے ہیں دستخطوں سے میچ کرسکتے ہیں جسٹس افضل سعید نے کہا کہ دستاویزات کو دفن کرنے کی کوشش نہ کرے اس پر شاہد حامدنے کہا کہ عدالت مریم نواز کے دستخطوں کا جائزہ لے سکتی ہے ان کے نام سے منسوب جس دستاویز کا حوالہ دیا جارہا ہے اس پر مریم نواز کے جھوٹے دستخط ہیں اس پر جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ دستخط کے معاملے پر کوئی ماہر ہی رائے دے سکتا ہے ججز دستخط کی سائنس کے ماہر نہیں ہیں جسٹس گلزار نے کہا کہ بظاہر دستخط میں کافی فرق نظر آرہا ہے جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ مریم کی ذاتی معلومات کے فارم پر بھی دستخط موجود ہیں یہ دستاویز عالمی صحافتی کی یونین کی ہیں پانامہ جا کر مریم کی دستخطوں کی دستاویز نہیں دیکھی جاسکتیں جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ منروا کمپنی کا خالی فارم ویب سائٹ سے مل جاتا ہے مریم نواز کے وکیل نے کہا کہ دستخطوں کو دیکھنے کیلئے محدب عدسہ فراہم کردیا گیا ہے جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ منروا کمپنی کو اگر دو ہزار چھ میں ہائر کیا گیا تو عدالت میں دو ہزار گیارہ کی دستاویزات کیوں پیش کی گئیں شاہد حامد نے کہا کہ کسی نے میرا ذاتی اکاؤنٹ بھی ہیک کرنے کی کوشش کی مجھے میل آئی کہ اپنا پاسورڈ تبدیل کریں کیونکہ کوئی آپ کے اکاؤنٹ تک رسائی چارہا ہے جسٹس اعجاز الحسن نے کہا کہ آپ مریم نواز کی دستاویزات سے انکار کررہے ہیں جس پر شاہد حامد نے کہا کہ یہ تو کہہ دیا کہ مریم نواز بیففشل مالک ہیں مگر یہ نہیں بتایا کہ وہ نیسکول یا نیلسن کمپنی کی مالک ہیں جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ اگر یہ دستاویز دو ہزار بارہ کی ہیں تو اس مقدمے سے اس کا کیا تعلق ہے ؟ جسٹس اعجاز الحسن نے کہا کہ تحریری جواب کے مطابق مریم نواز صرف نیسکول کی ٹریسرٹی ہیں شاہد حامد نے کہا کہ ٹرسٹ ڈیڈ کے مطابق مریم نواز نیکسول اور نیلسن کی ٹیرسٹی ہیں جسٹس اعجاز الحسن نے کہا کہ مریم نواز نے تحریری جواب میں خود کو نیسکول کی ٹیرسٹی تک کیوں محدود رکھا آپ کے تحریری جواب میںیکسانیت نہیں ہے مریم نواز نے کہا کہ حسین نواز این ٹی این ہولڈر نہیں جسٹس آصف سعید کھوسہ نے مریم نواز دو ہزار چھ سے ٹیرسٹی ہیں تو یہ غلطی نہیں ہونی چاہیے جس پر شاہد حامد نے کہا کہ میرے موکل کے حوالے سے جعلی دستاویزات پیش کی گئیں جعلی دستاویزات پیش کرنے والوں کیخلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جاسکتی ہے جسٹس ا عجاز الحسن نے کہا کہ تاثر ملتا ہے کہ کارروائی کے ساتھ جوابات میں بھی بہتری لائی جارہی ہے جسٹس کھوسہ نے کہا کہ ایشو ایمانداری کا ہے ہم سمجھنا چاہتے ہیں کہ سچ کیا ہے ؟شاہد حامد نے کہا کہ تحقیقاتی ادارے کے پوچھنے پر مریم نواز کو کمپنی کا بینفیشل مالک بتایا گیا اگر مذائق اور فونیسکا کے پاس مریم نواز کی معلومات موجود تھیں تو منروا سے پوچھنے کی کیا ضرورت تھی؟ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ دستخطوں کے حوالے سے ایک معمہ ہے خاندان کے لوگ ایک دوسرے کی جگہ دستخط کرتے ہیں شاہد حامد نے کہا کہ میرا دعوی ہے کہ دستاویز پر دستخط جعلی ہیں آف شور کمپنیوں کے مالک حسین نواز ہیں جس پر جسٹس اعجاز الحسن نے کہا کہ سامبا بینک سے مریم نواز کے حوالے سے منروا کو خط کیوں لکھا اس پر شاہد حامد نے کہا منروا سروسز کمپنی کی خدمات حاصل کرنے پر سامبا بینک نے یہ خط لکھا حسین نواز کے ورثاء کے درمیان اثاثوں کی تقسیم کیلئے مریم کو ٹیرسٹی بنایا گیا ہے حسین نواز کی دو شادیاں اور سات بچے ہیں اثاثوں کی تقسیم کیلئے حسین نواز نے ٹرسٹ بنایا حسین نواز کی دونوں بیویاں الگ الگ شہریت رکھتی ہیں جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ مریم نواز نے نجی ٹی وی انٹرویو میں ٹیرسٹی ہونے کا کیوں نہیں بتایا کیا مریم کو اپنے ٹیرسٹی ہونے کا علم نہیں تھا۔ جسٹس اعجاز الحسن نے کہا کہ وہ اپنے والد کے ساتھ کب رہتی تھی وہ تو اپنی دادی کے ساتھ رہتی تھیں ۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ٹرسٹ ڈیڈ 2006ء کی ہے جبکہ مریم نواز نے 2012ء میں انٹرویو میں کہا کہ ہمارا کوئی اثاثہ ملک سے باہر نہیں ہے شاہد حامد نے کہا کہ مریم نواز انٹرویو میں کہا کہ ان کی بیرون ملک جائیداد نہیں مریم نواز کا بیان بالکل درست ہے مریم کا بیرون ملک اپنا کوئی گھر نہیں اس پر جسٹس اعجاز الحسن نے کہا کہ گھر اور جائیداد الگ الگ چیزیں ہیں جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ اگر مریم نواز کے ٹی وی انٹرویو تفصیلات میں فرق ہے تو ہمیں بھی فراہم کردیں یہ ہمارے لئے بہت اہم ہیں ہوسکتا ہے کہ شکایت کنندہ کی شکایت درست نہ ہوں انہوں نے کہاکہ مجھے یاد پڑتا ہے کہ مریم نے اپنے انٹرویو میں کہا کہ مجھے نہیں پتا کہ میری اور گھر والوں کی پراپرٹی کہاں سے نکال لائے ہیں جسٹس گلزار نے کہا کہ مریم نواز انٹرویو میں کہتے ہیں کہ وہ والد کے ساتھ رہتی ہیں جسٹس اعجاز الحسن نے کہا کہ میری پاکستان میں بھی جائیداد نہیں ہے زرعی زمین تو ہے جس پر شاہد حامد نے کہا کہ زرعی آمدن پر مریم نواز باقاعدگی سے ٹیکس دیتی ہیں ان کے پاس پاکستان میں جائیداد ہے عدالت کے سامنے معاملہ متنازعہ حقائق کا ہے اس حوالے سے عدالتی فیصلوں کی مثالیں پیش کرونگا عدالتی فیصلے کے مطابق دستخط کے تنازعہ پر کوئی حتمی رپورٹ ماہر ہی دے سکتا ہے جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ دستخط کے ماہر کو عدالت میں پیش ہوکر بیان دینا ہوتا ہے اس پر عدالت میں جرح بھی ہوتی ہے جسٹس کھوسہ نے کہا کہ جائیداد سے متعلق بہتر معلومات شریف خاندان کے پاس ہیں جائیداد ان کی ہے ان کو علم ہونا چاہیے جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ آپ ٹیرسٹی ہیں آپ کو اثاثوں کا علم ہونا چاہیے اگر زنجیر ٹوٹی نہ ہوتی تو ہم تمام کو جوڑ لیں گے جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ دوسری جانب سے جعلی دستاویزات دی گئیں اس پر شاہد حامد نے کہا کہ میں نے یہ کبھی نہیں کہا پی ٹی آئی کو اپنی دستاویزات کی پہلے تصدیق کروانی چاہیے یہ نہیں کہ مخالف فریق نے جعل سازی کی ہے جسٹس اعجاز الحسن نے کہا کہ کیا امید کرتے ہیں کہ تصدیق کیلئے پانامہ جائیں جسٹس شیخ عظمت نے کہا کہ ایشو یہ ہے کہ مریم نواز بینفشل مالک ہیں یا نہیں تحریک انصاف مریم نواز کو بینفشل مالک کہتی ہیں آپ کہتے ہیں مریم نواز بیفشل مالک نہیں بلکہ ٹیرسٹی ہیں اس اختلاف کے نقطے پر آج عدالت کو مطمئن کریں قطری خط کہتا ہے کہ حسین نواز کو تمام سرٹیفکیٹ دیئے گئے اس کی بھی وضاحت کریں عدالت نے کیس کی سماعت کیلئے آج تک کیلئے ملتوی کردی۔