|

وقتِ اشاعت :   January 27 – 2017

اسلام آباد:سپریم کورٹ آف پاکستان میں پاناما لیکس کے معاملے پر درخواستوں کی سماعت کے دوران وزیراعظم نواز شریف کے صاحبزادوں حسن اور حسین نواز نے اضافی دستاویزات پر مشتمل لندن فلیٹس سے متعلق منی ٹریل جمع کرا دی ہیں جس میں قطری شہزادے کا ایک اور خط بھی شامل کیا گیا ہے ۔دستاویزات میں دبئی فیکٹری کی 1980 میں فروخت، سعودی عرب میں عزیزیہ اسٹیل مل کی خریدو فروخت، میاں شریف کی التھانی فیملی کے ساتھ سرمایہ کاری کی سیٹلمنٹ، حدیبیہ پیپر ملزکی آڈیٹر رپورٹس، التوفیق ٹرسٹ کا قرضہ، نیسکول، نیلسن کمپنیوں کا کنٹرول سنبھالنے کی دستاویزات، ٹسٹی سروسز کارپوریشن کی خدمات حاصل کرنے کے خط کی کاپی تاریخوں سمیت جمع کرائی گئیں ہیں ۔سپریم کورٹ کا پانچ رکنی بینچ جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں پاناما پیپرز لیکس کیس کی سماعت کی ، حسین نواز کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے قطری شہزادے کا دوسرا خط پیش کیا۔عدالت میں پیش کیے گئے قطری شہزادے حماد بن جاسم بن جابر الثانی کے تحریری بیان میں ان کا کہنا تھا کہ میرے والد اور نواز شریف کے والد کے درمیان طویل عرصے سے کاروباری تعلقات تھے، میرے بڑے بھائی شریف فیملی اور ہمارے کاروبار کے منتظم تھے،خط کے مطابق ‘1980 میں نواز شریف کے والد نے قطر کی الثانی فیملی کے رئیل اسٹیٹ بزنس میں سرمایہ کاری کرنے کی خواہش ظاہر کی، میرے خیال میں 12 ملین درہم نواز شریف کے والد نے ہمارے کاروبار میں لگائے، جو انھوں نے دبئی میں اپنے بزنس کو فروخت کرکے حاصل کیے تھے۔حماد بن جاسم بن جابر الثانی نے خط میں مزید کہا کہ لندن کے 4 فلیٹس (16، 16اے ، 17 اور 17 اے ایون فیلڈ ہاؤس، پارک لین ، لندن) دو آف شور کمپنیوں کے نام رجسٹرڈ تھے، ان آف شور کمپنیوں کے شیئر سرٹیفکیٹ قطر میں موجود تھے، لندن کے فلیٹس قطر کے رئیل اسٹیٹ بزنس کے منافع سے خریدے گئے اور دونوں خاندانوں کے تعلقات کی بناء4 پر یہ فلیٹس شریف خاندان کے زیر استعمال تھے جس کا وہ کرایہ دیتے تھے۔خط میں کہا گیا ہے کہ دبئی اسٹیل مل بینکوں اور دبئی حکومت کے تعاون سے بنائی گئی، خط میں قطری شہزادے کی کاروباری تفصیلات بھی فراہم کی گئی ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ حمد بن جاسم کا کاروباردنیا بھر میں پھیلا ہوا ہے، 22 دسمبر 2016 کو لکھے جانے والا خط پہلے خط میں اٹھنے والے سوالات کے جواب میں لکھا گیا، قطر میں سرمایہ کاری کیش کی صورت میں کی گئی،کہ اس وقت قطر میں کاروبار کیش کی صورت میں ہی کیا جاتا تھا۔سماعت کے دوران جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ہدایت کی کہ چارٹ بنا کر عدالتی وقفے کے بعد تحائف میں ملنے والی رقم اور بطور تحفہ بچوں میں تقسیم کا ریکارڈ پیش کیا جائے، اس میں تفصیل دی جائے کہ والد نواز شریف نے بیٹی مریم نواز کو کب کب رقم تحفہ میں دی، بیٹی مریم صفدر نے کب کب وہ رقم والد کو واپس کی۔دوران سماعت وزیر اعظم نواز شریف کے وکیل مخدوم علی خان جماعت اسلامی کی درخواست پر جواب عدالت میں جمع کرا دیا، جواب میں کہا گیا ہے کہ نواز شریف نے وزیر اعظم کے حلف کی خلاف ورزی نہیں کی۔ لندن کے چار فلیٹس میں سے کوئی ایک فلیٹ بھی وزیر اعظم کی ملکیت نہیں اور وزیر اعظم نے 31 مارچ 2013 کو جمع کرائے گئے کاغذات نامزدگی میں کوئی غلط بیانی نہیں کی،وزیر اعظم نے آرٹیکل 248 کے تحت عدالت سے کوئی استثنا نہیں مانگا۔سماعت کے دوران شاہد حامد نے اپنی موکلہ مریم نواز کے ٹی وی انٹرویو کا ٹرانسکرپٹ عدالت میں جمع کرایا، جس میں مریم نواز نے درخواست گزاروں کے الزامات کا جواب دیا۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے ہیں بظاہر لگتاہے کہ حسین نواز نے والد کو رقم تحفے میں دی پھر والد نے مریم نواز کیلئے زمین خریدی پھر بیٹی نے قانونی طور پر جائیداد کی مالک بننے کے بعد رقم والد کو واپس کردی ہے اس لحاظ سے تاریخیں بہت اہم ہیں انہوں نے شاہد حامد سے استفسار کیا کہ مریم نواز کیلئے زمین انہی تاریخوں میں خریدی گئی جس میں حسین نواز نے والد کو تحفے کی رقم دی ہم نے رقم کی منتقلی ، تحائف کی آمد اور جائیداد کی خریداری کی تاریخیں دیکھنی ہیں ۔ جسٹس اعجاز افضل نے زیر کفالت کی تحریر سے متعلق ریمارکس میں کہا کہ نیب قانون میں بھی زیر کفالت کی تعریف نہیں کی گئی ڈکشنری کے مطابق دوسرے پر مکمل انحصار کرنے والا زیر کفالت ہوتا ہے اگر قانون واضح نہ ہو تو عام ڈکشنری کے معنی ہی استعمال کئے جائینگے ۔ وکیل شاہد حامد نے کہا کہ مریم صفدر نہ والد کی زیر کفالت ہیں اور نہ ہی بیرون ملک آف شور کمپنیوں کی مالک ہیں وہ شادی شدہ خاتون ہیں اور مشترکہ خاندانی رہائش میں رہائش پذیر ہیں زرعی آمدن رکھتی ہیں اور باقاعدہ ٹیکس ادا کرتی ہیں شاہد حامد نے کہا کہ مریم نواز کے انٹرویو کا مسودہ عدالت میں جمع کرادینگے مریم بی بی نے انٹرویو میں الزامات کا جواب دیا تھا جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ زیر کفالت میں 2کا ذکر ہونے کا مطلب کیا ہے جس پر شاہد حامد نے کہا اس میں ایک وہ خود اور دوسرا اس کی اہلیہ ہیں ۔ جسٹس اعجاز الحسن نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ 2011ء کے ٹیکس فارم میں مریم نواز کو زیر کفالت دکھایا گیا ہے اس پر شاہد حامد نے کہا کہ اگر کوئی شادی شدہ خاتون والدین کے ساتھ رہے تو وہ زیر کفالت کے دائرہ میں آئیگی زیر کفالت کی کوئی خاص تعریف نہیں اس میں بزرگ اور بے روزگار افراد کو شامل کیا جاسکتا ہے زیر کفالت کے نہ ہونے پر انکم ٹیکس لاگو ہوتا ہے تعریف میں بی بی اور نابالغ بچے بھی آتے ہیں غیر شادی شدہ بیٹی کے ذرائع آمدن نہ ہوں تو وہ بھی زیر کفالت ہوگی جسٹس گلزار نے کہا کہ انکم ٹیکس قانون میں دیگر کا خانہ زیر کفالت کی کیٹگری ہے جس پر شاہد حامد نے کہا کہ انکم ٹیکس قانون میں مخصوص کیٹیگری دو ہزار پندرہ میں شامل کی گئی ہے جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ ہم آپ کی معاونت سے قانون کی تشریح کرسکتے ہیں اپنی اہلیہ اور بچوں کے نام پر جائیداد رکھیں تو وہ بے نامی ہوگی جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ اگر مشترکہ خاندانی کاروبار ہو تو بچے بڑے ہوچکے ہوں تو کیا صورتحال ہوگی ؟ مشترکہ کاروبار میں کیا تمام بچے زیر کفالت تصور ہونگے اس پر شاہد حامد نے کہا کہ اس حوالے سے کوئی واضح تعریف نہیں کی جاسکتی بلکہ کیس ٹو کیس معاملہ ہوتا ہے شیخ عظمت سعید نے کہا کہ اگر کوئی شخص خاندان کا سربراہ ہو اور ان کے بچے زیر کفالت ہوجائینگے