|

وقتِ اشاعت :   January 27 – 2017

کوئٹہ:مردم شماری اور خانہ شماری کی مخالفت اصولوں اور حقائق کو پرکھتے ہوئے کر رہے ہیں اسے نفرت سے تعبیر نہ کیا جائے اصولی موقف نہ کہ صرف بلوچوں کیلئے بلکہ تمام بلوچستانی عوام کیلئے اپنائی ہے مستقبل میں بلوچستانی عوام مسائل سے دوچار ہو سکتے ہیں وزارت داخلہ نے بارہا اس حوالے سے یہ واضح کیا ہے کہ 30لاکھ سے زائد مہاجرین ملک میں موجود ہیں اسی حوالے سے انہیں ایک سال کی توسیع دی گئی ہے اگر افغان مہاجرین چلے گئے ہیں تو توسیع کس بات کی صوبائی حکومت اور وزارت داخلہ پہلے فیصلہ کریں کہ کس کا موقف درست ہے مذہبی جماعتیں تنگ نظری کی بجائے حقائق پر بات کریں اصولی موقف سے نفرتیں نہیں اور حقائق سامنے آتے ہیں مارگٹ ‘ کلی محمد شہی میں برفباری سے شدید متاثر ہوئے وہاں امدادی کارروائیوں کا آغاز کیا جائے ان خیالات کا اظہار پارٹی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات آغا حسن بلوچ ایڈووکیٹ نے مارگٹ ‘ کلی محمد شہی ‘ زڑخو کے وفد کی میر عطاء اللہ محمد شہی کی قیادت میں ملنے والوں سے بات چیت کرتے ہوئے کیا وفد میں محمد حسین محمد شہی ‘ امام بخش ‘ امام سرور سمالانی ‘ اکرم بلوچ شامل ہیں انہوں نے کہا کہ حالیہ برفباری اور بارشوں اور مارگٹ کلی محمد شہی ‘ وڈیرہ باران خان سمالانی ‘ کلی غلام سرور سمالانی ‘ کلی رفیق ساتکزئی ‘ کلی نور الدین محمد شہی ‘ کلی وڈیرہ عبدالمجید ساتکزئی ‘ کلی غلام حیدر محمد شہی کے بلوچ اقوام سے تعلق رکھنے والے افراد کو نقصانات کے ازالے کے حوالے سے صوبائی حکمران اور انتظامیہ نے مکمل طور پر نظر انداز کر دیا ہے حالانکہ ان علاقوں سے ملحقہ غیر بلوچ علاقوں میں سیاسی بنیادوں پر عوام کو ریلیف دیا اور اقدامات کئے لیکن یوسی زڑخو 66 جہاں شدید نقصان پہنچا ہے حکمرانوں نے جانبداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں نظر انداز کر دیا ہے عوام بے یارومددگار کھلے آسمان تلے پڑے ہیں نقصانات کے باوجود حکمرانوں کی عدم توجہ باعث مذمت ہے آغا حسن بلوچ ایڈووکیٹ نے کہا کہ ہماری کوشش ہو گی کہ ہر فورم پر عوام کے حقوق اور نقصانات کے ازالے کیلئے جدوجہد کریں اور عوام کی توجہ اس جانب مبذول کرائیں تاکہ یہاں کے غیور بلوچوں کو حالیہ بارشوں سے جو نقصانات ہوئے ہیں ریلیف مل سکے بی این پی نے ہمیشہ مشکلات وقت میں عوام کیلئے آواز بلند کی حکمرانوں اور انتظامیہ کی ذمہ داری ہونی چاہئے کہ وہ بلا رنگ و نسل اور عوام کی خدمت پر یقین رکھیں لیکن صوبائی حکومت کی جانبداری اور دانستہ طور پر بلوچستان بھر میں بلوچوں کو نظر انداز کرنے کی پالیسی اب ناقابل برداشت حد تک بڑھ چکی ہے عوامی خدمت سیاسی بنیادوں پر نہیں انسانیت کی بنیاد پر کی جاتی ہے مردم شماری کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں لاکھوں کی تعداد میں افغان مہاجرین کی موجودگی اور وزارت داخلہ کا بیان کے30لاکھ افغان مہاجرین ملک میں آباد ہیں ہمارے مطابق ساڑھے 5 لاکھ افغان خاندانوں نے بلوچستان سے شناختی کارڈز حاصل کیا گیا جبکہ دوسری جانب حکمران کہتے ہیں کہ مہاجرین کی اکثریت واپس جا چکی ہے اب وزارت داخلہ اور صوبائی حکومت خود فیصلہ کریں کہ کس کا موقف درست ہے اگر افغان مہاجرین جا چکے ہیں تو مہاجرین کے مدت میں ایک سال کی توسیع کس لئے کی گئی حقائق کو توڑمروڑ کر اپنے مفاد کیلئے پیش کرنا مسئلوں کا حل نہیں انہوں نے کہا کہ مذہبی جماعتیں تنگ نظری کی بجائے حقائق پر بات کریں کیا یہ درست عمل ہوگا کہ بلوچستانیوں کے حقوق پر غیر ملکیوں کے ذریعے ڈاکہ ڈالا جائے بی این پی مردم شماری کی مخالف نہیں لیکن 2013ء کے جعلی انتخابات کی طرح یہ مردم شماری قابل قبول نہیں جعلی حکمرانوں کو جس انداز میں اسمبلی نشستیں مال غنیمت سمجھ کر دی گئیں عوام کو بخوبی علم ہے کہ 2013ء کے الیکشن میں کس طرح عوامی مینڈیٹ چرا کر جعلی حکمرانوں کی جولی میں ڈالا گیا بی این پی سی پیک ‘ مردم شماری ‘ حقیقی ترقی و خوشحالی کی مخالف نہیں ہم چاہتے ہیں کہ میگا پروجیکٹس بنائے جائیں لیکن ان میں بلوچ اور بلوچستانیوں کو اولیت دی جائے غیر ملکیوں کی وجہ سے بلوچستان کے پشتون ‘ ہزارہ ‘ پنجابی سمیت دیگر تمام مشکلات سے دوچار ہوں گے کیونکہ پہلے ہی کلاشنکوف کلچر ‘ انتہاء پسندی ‘ مذہبی جنونیت مہاجرین کی بدولت پروان چڑھ چکی ہے –