کوئٹہ:بلوچستان کے سیاسی رہنماؤں ،ادیبوں ،دانشوروں اور شعراء نے کہاہے کہ ماضی کے مقابلے میں موجودہ دور میں ترقی پسندانہ سوچ کے فروغ کی زیادہ ضرورت ہے ،جہاں ادب اور سیاست یکجا ہوتے ہیں ان معاشروں کے لوگ زندہ ہوتے ہیں ،ادیبوں ،شعراء اور دانشوروں کو چاہئے کہ وہ موجودہ حالات کی نزاکت کا احساس کرتے ہوئے کردار ادا کرے ۔ ان خیالات کااظہار انجمن ترقی پسند مصنفین بلوچستان کے زیراہتمام ’’بدلتی صورت حال اور بلوچستان میں امن ،ترقی اور استحکام کیلئے اہل قلم کی ذمہ داری ‘‘کے عنوان سے منعقدہ صوبائی کنونشن وسیمینار سے نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر میر حاصل بزنجو، سابق وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ ،عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنماء ڈاکٹرعنایت اللہ کاسی ،راحت سعید ،ایوب بلوچ ،پروفیسر سیال کاکڑ ،مظفر ہاشمی ،آغا گل ،پناہ بلوچ ،سرور جاوید ،موسیٰ جان خلجی ،ڈاکٹرعرفان بیگ ودیگر نے خطاب کرتے ہوئے کیا۔مقررین کاکہناتھاکہ معاشروں کی ترقی کیلئے سیاست دانوں سمیت ادیبوں ،دانشوروں اور شعراء کاکردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ وہی رائے عامہ ہموار کرتے ہیں ،انہوں نے کہاکہ ادب اور زبان کی فروغ اور ترویج کیلئے جاری کوششوں کو مزید تیز کرنا ہوگا ،کیونکہ وہی معاشرے زندہ اور ترقی یافتہ کہلائے جاتے ہیں جہاں سیاست دان اور دانشور یکجا ہو انہوں نے کہاکہ اگر چہ ادیب ،دانشور اور شاعر مظلوم طبقہ ہے لیکن وہ اپنی ذمہ داریوں سے غافل نہیں ،دنیا میں تاریخی انقلابی تحریکوں میں ادیبوں ،شعراء اور دانشوروں کا اہم کردار رہاہے ،اس لئے بلوچستان کی موجودہ حالات میں بھی دانشور وں اور دیگر پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے ،انہوں نے کہاکہ شعراء اور ادیب ترقی مخالف نہیں بلکہ ہمیں وقت کااحساس کرتے ہوئے اپنا کردارادا کرنا چاہئے ،مقررین نے بلوچی ،پشتون اور دیگر زبانوں کی تہذیب پر بھی روشنی ڈالی اور کہاکہ ان زبانوں کا مورخ ہونا سہل کام نہیں ،انہوں نے کہاکہ سارے انسان برابر ہے لیکن یہاں جمہوری دور میں لوگ خودکشیاں کررہے ہیں ،اس کی خاص وجہ جمہوریت کیلئے تکالیف برداشت کرنا غریبوں کاکام جبکہ اقتدار میں رہنا سرمایہ دار طبقے کاکام ہے ،انہوں نے کہاکہ ایک طرف امریکہ 7مسلم ممالک کے شہریوں پر پابندی عائد کررکھی ہے لیکن دوسری طرف وہ خود افغانستان میں گھسا بیٹھا ہے اس نے افغانستان میں جو آگ لگائی ہے ،اس سے ختم کرنے کیلئے ذمہ داری ادا کرنی چاہئے ،مقررین نے کہاکہ ملک غلط پالیسیوں کی وجہ سے نہ صرف دولخت ہوا بلکہ اسے اقتصادی اوردیگر لحاظ سے بھی نقصان پہنچاہے ،ان کاکہناتھاکہ مشرقی پاکستان ہم سے 25سال بعد آزاد ہوالیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ آج ہم سے زیادہ ترقی یافتہ ملک بن چکاہے ،انہوں نے کہاکہ صوبے کی گھمبیر حالات کے متعلق ادیبوں ،دانشوروں کو تحقیق کرنی چاہئے کہ بلوچستان آخر کیونکر مختلف شعبوں میں اتنا پیچھے رہ گیاہے ،انہوں نے کہاکہ سقوط ڈھاکہ کے بعد انتخابات میں پاکستان پیپلزپارٹی اور نیپ کو کامیابی ملی اور انتخابات کے بعد دونوں جماعتوں نے حکومت سازی کیلئے معاہدہ بھی کیا لیکن اچانک راتوں رات اس معاہدے کو ختم کرکے نیپ رہنماؤں کو پابند سلاسل کیاگیا اور اس پر پابندی عائد کرردی گئی انہوں نے کہاکہ ایک طرف روس کی گرم پانی تک رسائی کے خلاف طویل جنگ لڑی گئی اور 40لاکھ افغانوں کا خون بہایا گیا تو دوسری طرف فخر سے چین کے ساتھ راہداری بنانے کاکہاجارہاہے ،انہوں نے کہاکہ راہداری کے متعلق بلوچستان اور خیبرپشتونخوا کے تحفظات دور کئے جانے چاہئے ،مقررین نے کہاکہ عوام کی جان ومال کے تحفظ کیلئے تمام طبقات سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو کرداراداکرنا ہوگا،انہوں نے کہاکہ ادیب کسی بھی سماج کا آئنہ ہوا کرتاہے کیونکہ ادب کسی معاشرے کی نمائندگی کرتاہے ،انہوں نے کہاکہ سیمینار کاایجنڈا ظلم کے خلاف ہے آج ہم خوف کے ماحول میں رہ رہے ہیں جس کے خاتمے کی ضرورت ہے ،مقررین نے خبر دار کیاکہ اگر موجود حالات کاادراک سیاست دانوں ،ادیبوں ،دانشوروں اور شعراء سمیت دیگر نے نہ کیا تو ہمیں افغانستان اور شام سمیت دیگر ممالک سے بھی برے حالات کاسامنا کرناپڑسکتاہے ،انہوں نے کہاکہ اس وقت ادیبوں ،اور لکھاریوں کو مل کر سیاسی کارکنوں کے ساتھ سیاست کو آگے بڑھانا چاہئے کل کے مقابلے میں آج ترقی پسندانہ سوچ کے فروغ کی زیادہ ضرورت ہے کیونکہ جہاں سیاست اورادب یکجا ہوتے ہیں وہ معاشرے ہی زندہ کہلائے جاتے ہیں ،صوبائی کنونشن اورسمینار کے دوران شعراء نے انقلابی شاعر حبیب جالب ،عطاء شاد ،رحمن بابا ،منیر بنگلزئی اور دیگر کے کلام بھی پیش کئے اور�آخر میں معروف شاعر ودانشور راحت سعید نے شرکا ء کا شکریہ ادا کیا۔