نیشنل پارٹی کے سربراہ میر حاصل خان بزنجو نے کوئٹہ پریس کلب میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کیا جس میں انہوں نے اپنے پارٹی موقف کا اعادہ کیا کہ غیر ملکی تارکین وطن کی موجودگی میں مردم شماری قابل قبول نہیں، لہٰذا اس کو بلوچستان میں ملتوی کیا جائے۔ مردم شماری اس وقت تک نہ کی جائے جب لاکھوں کی تعداد میں غیر قانونی تارکین وطن اور افغان مہاجرین بلوچستان اور دیگر صوبوں میں موجود ہیں۔ پہلے حکومت نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ تمام افغان مہاجرین اور غیر قانونی تارکین وطن کو مارچ 2017تک واپس اپنے ملک بھیجا جائے گا۔ اگر اس پر عمل ہوتا اور افغان مہاجرین کی واپسی مکمل ہوتی توایسی صورت میں بلوچ قوم پرست پارٹیوں کو شاید کوئی شکایت نہ ہوتی اور اگر چند ایک ہزار رہ بھی جاتے تو ان پر اعتراض نہ کرتے لیکن نامعلوم وجوہات کی بناء پر ان کی واپسی میں پورے ایک سال کی توسیع کردی گئی جو ملک اور قوم کے بنیادی مفادات کے خلاف تھا۔ اب تمام بلوچ پارٹیوں نے تقریباً یکساں موقف اختیار کیا ہوا ہے کہ وہ ایسی صورت میں مردم شماری اور اس کے نتائج کو قبول نہیں کریں گے جہاں پر افغان غیر قانونی تارکین وطن موجود ہوں، اس لئے مردم شماری اور اس کے نتائج متنازعہ رہیں گے اور بلوچ قوم کے لیے بحیثیت مجموعی یہ قابل قبول نہیں ہوں گے۔ اس لئے مردم شماری کے انعقاد کو افغان غیر قانونی تارکین وطن اور افغان مہاجرین کی واپسی کے ساتھ مشروط کیا جائے۔ یہی نیشنل پارٹی کا موقف ہے جو جائز اور قانونی ہے۔ ہر وہ شخص جو جمہوری روایات پر یقین رکھتا ہے اس موقف کی حمایت کرتا ہے۔ اس سے قبل بلوچستان نیشنل پارٹی نے یہ مسئلہ اٹھایا ہے اور اس کو بڑی پذیرائی ملی ہے، اس مسئلے پر بی این پی نے بڑے بڑے عوامی جلسے بھی کئے جو تاریخی تھے ،ان جلسوں میں بہت بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی اور اس مطالبہ کی بھرپور حمایت کی ۔اب نواب زادہ لشکری رئیسانی اسی مسئلہ پر ایک بہت بڑا جرگہ بلارہے ہیں جس میں بلوچ اکابرین کے علاوہ پختون، پنجابی، سندھی، فارسی اور سرائیکی بولنے والے لوگ جو بلوچستان میں بستے ہیں، شریک ہوں گے ۔یقینادیگر اقوام اور زبانیں بولنے والے لوگ بلوچوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کریں گے اور حکومت سے مطالبہ کریں گے کہ مردم شماری کو افغان اور دیگر غیر قانونی تارکین وطن کی واپسی سے مشروط کیا جائے۔ اب یہ مسئلہ حکومت کی سبکی کا باعث بن رہا ہے کیونکہ حکومت گزشتہ 15سالوں سے یہ تسلیم کرنے سے انکار کرتی رہی ہے کہ بلوچستان میں عوام کے خلاف کوئی پولیس ایکشن نہیں ہورہی ہے۔ اب حکومت کی ایک اتحادی پارٹی کے سربراہ یہ تصدیق کررہے ہیں کہ اس پولیس ایکشن یا کارروائیوں کی وجہ سے لاکھوں کی تعداد میں بلوچ عوام کو اپنے گھر بار چھوڑنے پڑے خصوصاً مری بگٹی کے قبائل، نصیر آباد، کچھی، سبی، بولان، آواران، جھالاوان کے بعض علاقوں سمیت تقریباً پورا مکران اس تنازعہ کی لپیٹ میں آیا ہے جہاں سے لوگوں نے اپنا گھر بار چھوڑدیا ہے۔ بلوچستان کے علاقوں میں وسیع پیمانے پر عام زندگی بری طرح متاثر ہوگئی ہے۔ نیشنل پارٹی کے سربراہ جو خود وفاقی وزیر ہیں یہ مطالبہ کررہے ہیں کہ ان بے خانماں برباد لوگوں کو دوبارہ اپنے گھروں میں آباد کیا جائے اور ملک کے اندر تارکین وطن کو اپنے گھروں میں واپس آبادکیا جائے اور اس کے بعد مردم شماری کی جائے یعنی حکومت کے لیے دو بڑے مسئلے ہیں، پہلا غیر ملکی اور غیر قانونی تارکین وطن کی واپسی اور دوسرا ملک کے اندر بے گھر کئے گئے لوگوں کی آباد کاری۔ اس کے حل کے بغیر مردم شماری کے صحیح اور درست اہداف حاصل کرنا مشکل ہوں گے۔ یہ حکومتی وزیر کا ایک واضح موقف ہے اور اس نے عوامی رائے عامہ کا ساتھ دیا ہے ورنہ اس کے بغیر ان کے سیاسی ساکھ کو سخت نقصان پہنچنے کا اندیشہ تھا اور ہے۔ ہم نے ان کالموں میں بارہا اس بات کا مطالبہ کیا ہے کہ بلوچستان میں ان تمام افغان مفتوحہ علاقوں کو کے پی کے میں فاٹا سمیت شامل کیا جائے۔ بلوچستان کوبلوچوں کا قومی صوبہ بنایا جائے تو اس کے بعد یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ بلوچ عوام اور اس کی سیاسی جماعتیں مردم شماری کی حمایت کریں۔ اس کیبغیر یہ ناممکن نظر آتا ہے کہ بلوچ عوام اور ان کی تمام سیاسی جماعتیں مردم شماری کی حمایت کریں۔ اورجب بلوچستان کی سیاسی جماعتیں اور عوام مردم شماری کو قبول نہیں کریں گی تو اس کے نتائج کی کوئی اہمیت نہیں ہوگی۔