کوئٹہ:بلوچستان میں 20 سالوں کے بعد ہونے والی برفباری اور بارشوں سے صوبے کے مختلف اضلاع میں زمین کے اندر کئی مقامات پر دراڑیں پڑ گئی ہیں، امر یکی ادار ے کی معاونت سے ان در اڑوں پر تحقیق کرنے والیماہرین اراضیات کا کہنا ہے کہ زمین میں رونما ہونے والی تبدیلیاں مستقبل میں جانی اور مالی نقصانات کا باعث بن سکتی ہیں۔حالیہ چند دنوں کے دوران مقامی میڈیا میں شائع ہونے والی خبروں کے مطابق بلوچستان کے مختلف علاقوں حرمزئی، گلستان، ہرنائی، کوئٹہ، مستونگ، قلات، دالبندین میں زمین کے اندر تازہ دراڑیں نمودار ہو چکی ہیں جن کی چوڑائی ایک سے پانچ فٹ اور بعض کی لمبائی ایک کلومیٹر سے بھی زیادہ ہے۔ان تبدیلیوں کی وجہ ماہر ین زیر زمین سیپانی کا زیادہاخراج بتاتے ہیں ماہرین اراضیات بلوچستان میں امر یکہ کی دو یونیورسٹیوں کے تعاون سے صوبے کے مختلف علاقوں میں آنے والے زلزلوں، بارشوں اور بر فباری کے بعد زمین میں پڑنے والی دراڑوں اور دیگر تبدیلیوں پر کام کر رہے ہیں ان تبدیلیوں پر کام کر نے والی تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ بلو چستان یونیورسٹی کے شعبہ جیالوجی کے پروفیسر دین محمد کاکڑ نے وی او اے کو بتایا کہ وہ اپنی ایک ٹیم کے ساتھ 2006 سے اس مسئلے پر کام کر رہے ہیں انہوں نے تمام متعلقہ سر کاری اداروں اور زمینداروں پر زور دیا کہ وہ زمین کی سطح کے نیچے رونما ہونے والی تبدیلیوں کو کم کر نے کیلئے زیر زمین پانی کے استعمال کو کم اور بارشوں کے پانی کا زیادہ استعمال کریں ان کے مطابق جب ہم زمین سے بہت زیادہ پانی نکال لیتے ہیں تو وہاں خالی جگہ رہ جاتی ہے جس کی وجہ سے زمین کے اوپر کاحصہ نیچے والے حصے پر دبابڑھا دیتا ہے اور زمین دھنس جاتی ہے جس سے یہ دراڑیں پڑ جاتی ہیں ، جہاں بھی زمین سے زیادہ پانی نکالا گیا ہے وہاں پر یہ دراڑیں پڑ چکی ہیں اس کی تلافی دوبارہ نہیں ہو سکتی ، زمین کو دوبارہ اوپر نہیں اٹھا یا جاسکتا جہاں سے بھی یہ دراڑ گزرے وہاں عمارتوں میں بھی دراڑیں پڑ جاتی ہیں،وہاں سیوریج لائن ٹوٹ جاتی ہے، پانی کی پائپ لائن ٹوٹ جاتی ہے، جہاں بھی آبادی کے قریب یہ دراڑیں پڑتی ہیں وہاں اس کے نقصانات بہت زیادہ ہوتے ہیں بلوچستان کے 31 اضلاع میں سے صرف دو اضلاع میں نہر کا پانی استعمال کیاجاتا ہے باقی اضلاع میں زراعت کیلئے زیر زمین پانی کو بروئے کار لایا جاتا ہے واپڈا کی طرف سے فر اہم کر دہ معلومات کے مطابق صوبے کے 29 اضلاع میں کم از کم 25 ہزار ٹیوب ویل پینے کے پانی اور زرعی مقاصد کیلئے لگائے گئے ہیں جہاں سے روزانہ لاکھوں گیلن پانی نکالا جارہا ہے ماہرین کے بقول زیر زمین پانی کے وافر استعمال سے یہ پورا خطہ اجتماعی خودکشی کی طرف بڑھ رہا ہے اگر احتیاط سے کام نہ لیا گیا تو اس صوبے کے اکثر علاقوں کے لوگ دوسر ے صوبوں میں منتقل ہونے پر مجبور ہوجائیں گے صوبائی حکومت کے مطابق وزیر اعلی نواب ثنا اللہ زہری نے ضلع جعفر آباد سے نہر کا پانی صوبائی دارلحکو مت کو ئٹہ تک پہنچانے اور وفاقی حکومت کی مدد سے صوبے کے مختلف اضلاع میں ایک سو سے زائد ڈیموں کی تعمیر کیلئے اقدامات شروع کردئیے ہیں ۔بلوچستان قدرتی وسائل سے مالامال ہے صوبے کے دو علاقوں سوئی اور ہرنائی سے قدرتی گیس نکالی جارہی ہے اور مزید گیس اور تیل کے ذخائر کی تلاش کا کام بھی جاری ہے۔ اس کے علاوہ صوبے کے مختلف علاقوں سے لاکھوں ٹن کوئلہ، سنگ مرمر اور دیگر بیش بہا قیمتی معدنیات نکالی جاتی ہیں، ماہرین کے مطابق معدنیات نکالنے سے ہر جگہ زیر زمین گڑھے پڑ جاتے ہیں جہاں ٹوٹ پھوٹ کا عمل شروع ہو تا ہے جو بعد میں زلزلوں کابھی باعث بنتا ہے۔