30سے زائد مقامی کونسلوں کے چیئرمین نے حال ہی میں اسلام آباد کا رخ کیا جہاں انہوں نے وفاقی حکومت کی اس معاملے میں توجہ حاصل کرنے کی کوشش کی جس میں ان کو خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوسکی۔ البتہ ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی جو بلوچستان سے منتخب سینیٹر ہیں اور بلوچستان نیشنل پارٹی کے سیکریٹری جنرل بھی ہیں نے ان کی ضرور پذیرائی کی، ان کو عصرانہ دیا اور ان کے نیوز کانفرنس میں شرکت کی اور نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں ان کے حق میں زبردست بیان بھی دے ڈالا۔ اس موقع پر ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ جو نیشنل پارٹی کے اپنے دھڑے کے سربراہ ہیں انہوں نے بھی مقامی کونسلوں کی حمایت کی اور دونوں رہنماؤں نے مطالبہ کیا کہ مقامی کونسلوں کو مالی اور انتظامی اختیارات دیئے جائیں اور صوبائی اسمبلی کے اراکین کو صرف اور صرف قانون سازی کرنی چاہئے۔ ترقیاتی پروگرام صوبائی حکومت اور مقامی کونسل کریں۔ مقامی کونسلوں کے اختیارات کو صوبائی اسمبلی کے اراکین کو دینا انصاف کے خلاف ہے۔ مقامی ادارے ہی تمام بنیادی کام انجام دیں کیونکہ وہ مقامی کونسلوں کے سامنے جوابدہ بھی ہیں۔ جبکہ صوبائی اسمبلی کے اراکین مقامی کونسلوں کے سامنے جوابدہ نہیں ہیں۔ اس لئے یہ پتہ لگانا ایک مشکل کام ہے کہ صوبائی اسمبلی کے اراکین نے کتنی رقم اور کہاں خرچ کی جبکہ مقامی کونسلوں کا مکمل بجٹ ہوتا ہے اور مجاز کونسل اس کی نہ صرف منظوری دیتی ہے بلکہ اس پر نگاہ بھی رکھتی ہے اور اس پر وقتاً فوقتاً بحث بھی کرتی ہے۔ تقریباً 30اضلاع کے چیئرمین صاحبان نے حکومت بلوچستان سے مطالبہ کیا کہ ان کو مکمل اختیارات دیئے جائیں کیونکہ مقامی کونسلوں کے انتخابات سب سے پہلے بلوچستان میں ہوئے تھے، اب ان کی معیاد بھی ختم ہونے والی ہے لیکن تاحال ان کو مالی اور انتظامی اختیارات نہیں دیئے گئے جبکہ دوسرے نئے انتخابات قریب تر آرہے ہیں۔ چیئرمین صاحبان کو یہ شکایات تھیں کہ چند من پسند مقامی کونسلوں کو مالی اور انتظامی اختیارات دیئے گئے اور باقی سب کو جان بوجھ کر نظر انداز کردیا گیا۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ پاکستان کے آئین کے تحت مقامی کونسلوں کو اختیارات دیئے جائیں۔ پہلے صوبائی اختیارات اور بعد میں کونسلوں کے اختیارات اسی اسپرٹ کے ساتھ مقامی کونسلوں کو منتقل کیے جائیں۔ جب سے بلوچستان صوبہ بنا ہے اس وقت سے صوبائی حکومت اور مفاد پرست بیوروکریسی نے مقامی کونسلوں کے اختیارات کو غصب کر رکھا ہے۔ فنڈ زاور اختیارات پر نوکر شاہی کا قبضہ ہے جس کو ختم ہونا چاہئے۔ ان چیئرمین صاحبان نے اس بات پر اپنی حیرت کا اظہار کیا کہ خالق آباد اور بولان کے مقامی کونسلوں کے فنڈز سیکریٹری خزانہ اور دوسرے فرنٹ مین کے قبضہ سے برآمدہوئے۔ مقامی کونسلوں کے فنڈ ملی بھگت سے افسر شاہی اور وزراء نے ہڑپ کیے ۔ یہ ایک زندہ مثال ہے کہ وزراء اور نوکر شاہی کا گٹھ جوڑ اس مقدمہ میں ثابت ہوگیا ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ اتنی بڑی رقم سیکریٹری خزانہ اپنی مرضی سے اپنے پاس نہیں رکھ سکتے تھے۔ اور اب ان کے جرائم کی پردہ پوشی کی جارہی ہے۔ چیئرمین صاحبان کو تو وفاقی حکومت نے کوئی پذیرائی نہیں دی اور نہ ہی کسی نے ان کو سنا۔ بہر حال وہ اپنا احتجاج پریس کانفرنس کے ذریعے ریکارڈ کرانے میں کامیاب ہوئے اور اس کا سہرا ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی کے سر جاتا ہے جنہوں نے ان کے مسائل کو اجاگر کیا بلکہ ان کی رہنمائی بھی کی اور حکومت بلوچستان سے مطالبہ کیا کہ پاکستان کے آئین کے مطابق صوبے اور مقامی اداروں کے درمیان اختیارات کی تقسیم کا معاملہ حل ہونا چاہئے۔ ترقیاتی فنڈ کا کم سے کم 25فیصد حصہ مقامی کونسلوں کو ہر صورت میں ملنا چاہئے ۔امید ہے کہ صوبائی حکومت ان مطالبات پر غور کرے گی اور مقامی کونسلوں کو اختیارات دیئے جائیں گے۔