|

وقتِ اشاعت :   February 3 – 2017

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ مشتاق رئیسانی نے ایسی کیا پیش کش کی تھی کہ نیب نے پلی بارگیننگ کرلی ، ہم اس معاملے کو پلی بارگین نہیں، بارگین کہتے ہیں اور یہ تو چیئرمین نیب کے خلاف کارروائی کیلئے موزوں کیس بنتا ہے جبکہ نیب سے چھاپے کی ویڈیو اور تفصیلی جواب بھی طلب کرلیاگیا ۔خالد لانگو کی درخواست ضمانت پرسماعت جسٹس دوست محمد کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔دوران سماعت میں عدالت نے چیئرمین نیب پر برہمی کا اظہار کیا ۔جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ چیئرمین نیب کے خلاف کارروائی کیلئے یہ موزوں کیس بنتا ہے ۔جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ وضاحت کریں کہ کس قانون کے تحت پلی بارگین کی،سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی دستاویزات میں پلی بارگین کی کوئی معقول وجہ نہیں سامنے آسکی۔اس معاملے کو ہم پلی بارگین نہیں بارگین کہتے ہیں۔ ملزم کی جانب آپ کا اتنا جھکا ؤکیوں ہے ؟ شرمائیں نہیں کھل کر بتائیں کہ تحویل میں لئے گئے دو گھروں کی کتنی قیمت تھی ؟چیئرمین نیب نے عدالت کو بتایا کہ مشتاق رئیسانی سے دو گھر، 65کروڑ اور ساڑھے تین کلو سونا برآمد ہوا ۔جسٹس فائزعیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ یہ مشتاق رئیسانی کی ذاتی کمائی نہیں تھی لوگوں کے ٹیکس کا پیسہ تھا، اتنا سچ تو ملزم نے خود بھی بولاہے،یہ کیسے پتا چلے گا کہ اصل رقم کتنی تھی؟عدالت نے نیب سے چھاپے کی ویڈیو اور تفصیلی جواب مانگ لیا اسلام آباد ( آن لائن کے مطابق ) سپریم کورٹ نے سابق مشیر خزانہ بلوچستان خالد لانگو کی ضمانت سے متعلق کیس میں سابق سیکٹری خزانہ بلوچستان مشتاق رئیسانی کے گھر میں مارے گئے چھاپے کا ویڈیو ریکارڈ اور عدالتی سوالات کا تحریری جواب طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت 9فروری تک ملتوی کردی ۔ کیس کی سماعت جسٹس دوست محمد خان کی سربراہی میں جسٹس قاضی فائر عیسیٰ اور جسٹس فیصل عرب پر مشتمل بنچ نے کی ۔ کیس کی سماعت شروع ہوئی تو نیب نے عدالتی حکم پر مشتاق رئیسانی کے گھر سے رقوم کی برآمد گی سے متعلق کیس کی تفصیلی رپورٹ عدالت میں جمع کرائی ،جبکہ پراسکیوٹر جنرل نیب نے عدالت کو بتایا کہ پلی بارگین ریفرنس انکوائری کرنے کا آخری حکم چیئرمین نیب دیتے ہیں ، جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ کیا چیئرمین نیب خود فیصلے کرنے لگے ہیں،کس قانون کے تحت مشتاق رئیسانی کے ساتھ بارگین کی جو رقم در اصل اس کی تھی ہی نہیں ، اس پر پراسکیوٹر نیب نے عدالت کو بتایا کہ مشتاق رئیسانی کے ساتھ پلی بارگین کی منظوری ڈی جی نیب کوئٹہ کی سفارش پر دی گئی ، جس کے بعد بورڈ نے بھی منظوری دی ، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ریمارکس دیئے کہ نیب سے تو ایماندار تو وہ شخص ہے جس نے خود تسلیم کیا کہ لوٹی ہوئی رقم واپس کر رہا ہوں ،نیب نے اپنی اتھارٹی کا غلط استعمال کیا ہے ، سرکاری ملازمین ٹیکس ادا کرنے والوں کے ٹیکس سے تنخواہیں لیتے ہیں ، ٹیکس ادا کرنے والوں کے پیسے کا تحفظ کرنا ہمارا فرض ہے ،عدالت اس پلی بارگین کے عمل سے شکوک میں مبتلاء ہو گئی ہے ، یہ پلی بارگین نہیں بارگین ہے جبکہ جسٹس دوست محمد نے کہا کہ نیب عدالت کے شکوک و شہبات ہیں کو نیب دور کیوں نہیں کرتا ، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھاکہ نیب کو عدالت کے سامنے سچ بولنا مشکل کیوں لگتا ہے ، اس مقدمے میں نیب نے خود اپنے قانون اور قوائد کی خلاف ورزی کی ہے جبکہ چیئرمین نیب کا کہنا تھا کہ نیب کے ضابطہ میں پلی بارگین کا ضابطہ کار 12سال پہلے تیار کیا گیا ہے ، اس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ اپنی خواہشات کے مطابق ملک فروخت کر رہے ہیں ، ضبط شدہ مال میں پلی بارگین نہیں ہو سکتی ،چیئرمین نیب عدالت کو بتائیں مشتاق رئیسانی سے کتنی رقم برآمد ہوئی ، جس پر چیئرمین نیب نے عدالت کو بتایا کہ 65 کروڑ نقدی ،3.2 کلو سونا ، اور کئی گاڑیاں ضبط کی گئیں ، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے چیئرمین نیب سے استفسار کیا کہ گھر پر چھاپے کے دوران بنائی گئی ویڈیو موجود ہے توعدالت میں پیش کی جائے ،عدالت جاننا چاہتی ہے جو رقم برآمد ہوئی وہ پوری ہے یا اب کم ہو گئی ہے، اس پر چیئرمین نیب نے کہا کہ ہم نے کوئی ویڈیو نہیں بنائی جس پر قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میڈیا پر ویڈیو چلی رہی تھی جبکہ نیب کے ایک اہلکار نے کہا کہ ویڈیو ڈی وی ڈی کی صورت میں موجود نہیں اور نہ ہی پوری ویڈیو موجود ہے ، عدالت نے اس پر برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ نیب کو عدالت کے سامنے سچ بولتے ہوئے دشواری کیوں ہے ، پہلے کہتے ہیں ویڈیو نہیں ،پھر کہتے ہیں نہ مکمل ویڈیو ہے لیکن ڈی وی ڈی کی صورت میں نہیں ،کچھ دیر بعد کہیں گے مکمل ویڈیو موجود ہے۔عدالت عظمیٰ نے کیس کی سماعت ملتوی کرتے ہوئے 9فروری تک نیب کو مشتاق رئیسانی کے گھر مارے گئے چھاپے کا ویڈیو ریکارڈ اور عدالتی سوالات کا تحری جواب جمع کرنے کا حکم دیدیا ہے ۔