|

وقتِ اشاعت :   February 3 – 2017

وفاقی حکومت نے فاٹا میں اصلاحات لانے اور سفارشات طلب کرنے کے لیے ایک کمیشن قائم کیا تھا، اس نے اپنا کام مکمل کرلیا ہے اور رپورٹ وفاقی حکومت کو پیش کردی ہے اب کابینہ کے اجلاس میں اس کی حتمی منظوری متوقع ہے۔ ان سفارشات میں فاٹا کے تمام علاقوں کو کے پی کے میں ضم کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ یہ سفارش عوامی رائے عامہ سے حاصل کی گئی ہے اور بڑی تعداد میں لوگوں نے اس کی حمایت کی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ فاٹا کے عوام اور قبائل کو پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار آئینی اور بنیادی انسانی حقوق دیئے جارہے ہیں اس میں براہ راست ووٹ کا حق بھی شامل ہے۔ فاٹا کے تمام علاقوں کو صوبہ کے پی کے کا حصہ بنایا جارہا ہے اور ان کی نمائندگی صوبائی اسمبلی میں بھرپور ہوگی۔ امید ہے کہ کے پی کے کے عوام فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے آئندہ انتخابات میں فاٹا سے کسی قبائلی رہنما کو متفقہ طور پر وزیراعلیٰ چن لیں گے اور اس طرح سے اس قدرتی انضمام کی حمایت کرتے ہوئے اس کو کامیاب بھی بنائیں گے۔ یہ امر تصدیق شدہ ہے کہ فاٹا کے 50فیصد سے زیادہ لوگ کے پی کے کی طرف سے سہولیات کا فائدہ اٹھارہے ہیں۔ ان میں پانی، بجلی، سیوریج، اسکول، کالج، اسپتال، سڑکیں اور دوسری سہولیات شامل ہیں اور کے پی کے کی حکومت نے بھی ان کو کبھی بوجھ نہیں سمجھا اور کشادہ دلی سے ان کو یہ تمام بنیادی اور انسانی سہولیات فراہم کیں۔ اب یہاں سوال صرف ان کے سیاسی اور جمہوری حقوق کا ہے جس کی مخالفت بعض مفاد پرست عناصر کررہے ہیں۔ دراصل یہ لوگ اور سیاسی جماعتیں جو وفاقی حکومت کی اتحادی جماعتیں بھی ہیں اس کی مخالفت کرر ہی ہیں جو بلاجواز اور کوئی قابل قبول منطق نہیں ہے۔ اس مطالبے کا کوئی جواز نہیں ہے کہ فاٹا کو ایک الگ صوبہ بنایا جائے۔ فاٹا کے پی کے کا اٹوٹ انگ ہے اس کے باشندوں کو بھی وہ برابر کے حقوق دیئے جائیں جو صوبے کے لوگوں کو حاصل ہیں۔ پاکستان ایک وفاق ہے اور پاکستان کے وفاق میں پختونوں کا صرف ایک اور ایک ہی صوبہ ہوسکتا ہے۔ پختونوں کے ایک پاکستانی وفاق میں تین صوبے نہیں بن سکتے نہ ہی پاکستان کے عوام اس کی حمایت کریں گی کہ بلوچستان کے پختونوں کے لیے بھی الگ صوبہ بنایا جائے، اس طرح سے کے پی کے، فاٹا اور جنوبی پختونخواہ تین صوبے ہوں اور سینٹ میں تین چوتھائی اکثریت پختونوں کی ہو۔ اس کو کوئی پنجابی، سندھی، بلوچ اور پاکستانی پسند نہیں کرے گا۔ اس لئے یہ ضروری ہے کہ پختونوں کا ایک ہی بڑا اور طاقتور صوبہ بنایا جائے اور دیگر قومیتوں کے برابر اس کو بھی نمائندگی دی جائے۔ سینٹ میں پختونوں کے صرف اتنی ہی نمائندے ہوں جو دیگر صوبوں کے ہیں۔ اس لئے افغانستان کے تمام مفتوحہ علاقے جو انتظامی یا سیکورٹی وجوہات کی بناء پر بلوچستان میں شامل کیے گئے ہیں ان کو بھی کے پی کے میں شامل کیا جائے تاکہ ملک میں قومی یک جہتی کو فروغ دیا جاسکے اور قومی تضادات کا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاتمہ کیا جاسکے۔ بلوچستان سے سینٹ کے تمام نمائندے صرف اور صرف بڑی قومیت کے ہوں جس میں تاریخی اور روایاتی تمام ثقافتی اقلیتیں شامل ہوں گے۔ جب پہلی بار سینٹ کے انتخابات 1970کی دہائی میں ہوئے تو بلوچوں نے فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے ووٹوں کے ذریعے ایک پنجابی ،ایک پختون اور ایک ہزارہ کو سینٹ کا رکن منتخب کرکے اپنی روشن خیالی اور کشادہ دلی کا ثبوت دیا تھا کہ بلوچ اپنی ثقافتی اقلیتوں کو کتنی قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ یہی بلوچ کی کشادہ دلی کی ادا حکمرانوں کو پسند نہیں اور بلوچ کو ہمیشہ اس کے ثقافتی اقلیتوں سے لڑانے کی کوششیں کی گئیں جس میں وہ ناکام رہے۔ لیکن اس کی سزا آج تک بلوچ کو دی جارہی ہے اور اس کی کردار کشی کی جارہی ہے کیونکہ دوسرے صوبوں سے زیادہ بلوچوں نے رواداری اور کشادہ دلی کا ثبوت دیا ہے۔