|

وقتِ اشاعت :   February 8 – 2017

آج کل بعض لوگ شدت کے ساتھ مردم شماری کا مطالبہ کررہے ہیں لیکن وہ لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ سندھ کی 43فیصد آبادی نادرا کے پاس رجسٹرڈ نہیں ہے اور بلوچستان میں آبادی کا 57فیصد حصہ رجسٹرڈ نہیں ہے۔ یعنی بلوچستان کی آبادی کا صرف 43فیصد حصہ نادرا کے پاس رجسٹرڈ ہے اور اکثریتی آبادی رجسٹرڈ نہیں ہے۔ بلوچستان کو گزشتہ 14سالوں سے غیر معمولی صورت حال کا سامنا ہے۔ بہت ہی بڑی آبادی کو طاقت کے زور پر اپنے گھروں سے نکال دیا گیا ہے۔ ان میں مری بگٹی کے قبائلی علاقے، نصیر آباد، کچھی، سبی کے بعض علاقے, اس طرح وسطی بلوچستان، مکران، آواران اور ان کے متعلقہ علاقے متاثر ہوئے ہیں۔ جب تک وہ تمام پاکستانی شہری اپنے گھروں کو واپس نہیں آتے اور اپنے گھروں میں ان کی دوبارہ آبادکاری نہیں ہوتی تو مردم شماری کا کیا فائدہ۔ مردم شمای ایسی صورت حال میں حقیقی منظر نامہ پیش کرنے سے قاصر رہے گی اس کا مقصد عوام کو دھوکہ دینا ہے۔ دوسرا اہم ترین مسئلہ 50لاکھ سے زائد غیر قانونی تارکین وطن کی بلوچستان میں موجودگی ہے جنہوں نے حکومتی اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے جعلی شناختی کارڈ، پاسپورٹ اور دیگر پاکستانی دستاویزات حاصل کی ہیں۔ یہ سب کچھ حکومت کی مرضی کے بغیر ممکن ہی نہیں تھا کہ لاکھوں غیر قانونی تارکین وطن کی اتنی بڑی تعدادمیں موجودگی کو نظر انداز کیا جائے اور ساتھ میں سرکاری سطح پر ان کو وہ تمام تر سہولیات فراہم کی جائیں کہ وہ جعلی دستاویزات اور جعلی تصدیق کے ساتھ پاکستانی شناختی کارڈ، پاکستانی پاسپورٹ اور دیگر قانونی دستاویزات صرف چند ٹکوں کے عوض حاصل کریں۔ ایک آدھ واقعے کو حکومت کی کوتاہی، نااہلی اور مقامی افسران کی نااہلی یا بدعنوانی قرار دیا جاسکتا ہے مگر لاکھوں افراد کو یہ سہولیات فراہم کرنا صرف اور صرف حکومت کی مرضی اور پالیسی کی نشاندہی کرتی ہے لہٰذا حکومت اس جرم میں ملوث ہے۔ اسی لئے پوری دنیا اسامہ بن لادن، ملامنصور، خالد شیخ کی پاکستان میں موجودگی اور ان میں سے دو کی ہلاکت اور تیسرے کی گرفتاری کو شک کی نگاہ سے دیکھتا ہے ۔مردم شماری کے حوالے سے بلوچوں کوخدشہ ہے جو اپنی جگہ کافی وزن رکھتا ہے کہ لاکھوں مہاجرین کا اندراج کرکے انہیں ہمیشہ کے لیے بلوچوں اور بلوچستان پر مسلط کردیاجائے گا یعنی اس طرح سے لاکھوں غیر قانونی تارکین وطن کی موجودگی کو مقامی آبادی کے خلاف استعمال کرنا مقصود ہے۔ شاید اس عمل کے ذریعے حکومت اپنے چند ایک اہداف استعمال حاصل کرنا چاہتا ہے۔ بصورت دیگر اگر حکومت بلوچوں کے ساتھ مخلص ہے توپھر موجودہ حالات میں بلوچستان میں قطعاً مردم شماری کی ضرورت نہیں جب تک صوبے میں لاکھوں غیر قانونی تارکین وطن موجود ہیں،پہلے ان سب کو اپنے وطن واپس بھیجا جائے اور اس کے بعد مردم شماری کرائی جائے۔ دوسرا حل یہ ہے کہ نادرا کو موثر ادارہ بنایا جائے تاکہ وہ پورے سندھ، بلوچستان اور دیگر صوبوں میں لوگوں کی مکمل معلومات جمع کرے ، ہر شخص کا مکمل ریکارڈ رکھے ، تمام 18سال سے کم عمر افراد کی رجسٹریشن کرے اور اموات کی صورت میں نام فہرست سے خارج کردے یعنی ہر طرح سے نادرا کا ریکارڈ مکمل ہو وہاں سے بخوبی ملکی آبادی کا پتہ چل سکے تاکہ آئے دن کی مردم شماری سے چھٹکارا حاصل کیا جاسکے۔ اگر ہر شہری کا ریکارڈ نادرا کے پاس موجود ہو تو کسی مردم شماری کی ضرورت نہیں رہتی۔ ہم یہ بات وثوق کے ساتھ کہہ رہے ہیں کہ نادرا کے اعلیٰ ترین افسران نے سندھ کے وزیراعلیٰ اور دیگر حکام کو یہ بات بتائی کہ سندھ کی 43فیصد آبادی کا کوئی ریکارڈ نادرا کے پاس نہیں ہے یعنی سندھ کی 43فیصد آبادی رجسٹرڈ نہیں ہے۔ اس طرح بلوچستان کے سینیٹروں اور عوامی نمائندوں کے سامنے نادرا کے اعلیٰ ترین افسران نے سرکاری بریفنگ میں یہ تسلیم کیا ہے کہ بلوچستان کی 57فیصد آبادی کا نادرا کے پاس کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔ یعنی بلوچستان کی اکثریتی آبادی نادرا کے پاس رجسٹرڈ نہیں ہے۔ یہ وفاقی اور صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ملک کی مکمل آبادی کا سب سے پہلے ریکارڈ تیار کرے اور جلد سے جلد تیار کرے تاکہ ہر مرتبہ مردم شماری میں اربوں روپے خرچ نہ کرنا پڑے۔ لاکھوں کی تعداد میں فوجیوں کی اس ڈیوٹی سے جان چھوٹے اور وہ اپنا کام کرتے رہیں۔اور یہ بھی ضروری ہے کہ اس قسم کے لاحاصل مشق سے ملک اور قوم کو غیر ضروری سیاسی تنازعات میں نہ الجھایا جائے۔ آج کل مردم شماری ایک سیاسی تنازعہ بن چکا ہے اور اس کا مستقل حل صرف نادرا ہے۔