سالوں کی محنت کے بعد فاٹا اصلاحات تیار کی گئیں، اس کی حتمی رپورٹ وفاقی کابینہ کو منظوری کے لیے پیش کی گئی مگر آخری وقت میں اس کو وفاقی کابینہ کے ایجنڈے سے نکال دیا گیا۔ ایسا کیوں ہوا۔۔۔؟ابھی تک وفاقی حکومت یا کسی وفاقی وزیر نے اس کی وجوہات نہیں بتائیں۔ البتہ فاٹا کے اراکین قومی اسمبلی نے اس کے خلاف بھرپور احتجاج کیا بلکہ اے این پی کے رہنما ء نے فاٹا اصلاحات کے نفاذ کے لیے 12مارچ کی ڈیڈ لائن بھی دے دی اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ ان اصلاحات پر عمل کرے۔ دوسری جانب آفتاب شیرپاؤ اور دیگر رہنماؤں نے اس پر اپنے برہمی کا اظہار کیاوہ اس بات پر حیران تھے کہ آخری وقت میں فاٹا اصلاحات کو کابینہ کے ایجنڈے سے کیوں نکال دیا گیا۔ بعض مقررین نے واضح الفاظ میں یہ انتباہ کیا کہ اگر فاٹا میں اصلاحات نافذ نہیں ہوئے اور قبائلی عوام کو بنیادی انسانی حقوق نہیں دیئے گئے تو یہ دہشت گردوں کا گڑھ بن جائے گا اور یہ دوسرا کشمیر ثابت ہوگا، اس لئے فاٹا اصلاحات کا نفاذ ضروری ہے اور یہ وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔ فاٹا اصلاحات میں فاٹا کے تمام علاقوں کو کے پی کے صوبے میں ضم کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ سوائے محمود خان اچکزئی کے پورا پاکستان اس کی حمایت کررہا ہے کہ فاٹا قبائل کو بھی بنیادی انسانی حقوق دیئے جائیں ، ان کو بھی پاکستان کا شہری تسلیم کیا جائے اور تمام حقوق کے ساتھ ساتھ ان کو وہ تمام تر سہولیات اور خدمات فراہم کی جائیں جو دیگر پاکستانیوں کو حاصل ہیں ۔معلوم نہیں کہ محمود خان اچکزئی اس کی مخالفت کیوں کررہے ہیں۔ کیوں ان اصلاحات کے نفاذ کی راہ میں روڑے اٹکارہے ہیں جب ان علاقوں کے ادغام کا معاملہ آخری مراحل میں ہے، جبکہ موصوف آج اپنے تجاویز اخبارات میں شائع کروارہے ہیں تو انہوں نے کمیشن کے سامنے پیش ہوکر اپنا موقف کیوں پیش نہیں کیا اب آخری وقت میں حکومت پر غیر ضروری دباؤ ڈال رہے ہیں کہ ان اصلاحات کو نافذ نہ کیا جائے ۔ اس طرح کے تاخیری حربوں کا کوئی جواز نہیں ہے کیونکہ موصوف کا فاٹا اور کے پی کے میں کوئی اثر و رسوخ نہیں ہے نہ ہی ان کے پارٹی کا ان علاقوں میں وجود ہے۔ ہم روز اول سے ان اصلاحات کی حمایت کررہے ہیں کیونکہ اس طرح قبائلی عوام کو ان کے جمہوری حقوق ملیں گے اور صوبہ کے پی کے کے شہری کی حیثیت سے ان کو تمام تر سہولیات فراہمہوں گی۔ ان تمام باتوں کی مخالفت بعید از قیاس ہے اور اس کا کوئی سیاسی جواز نہیں ہے خصوصاً ان لوگوں اور سیاست دانوں کے لیے جو پختون قوم کی رہنمائی کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ہم اس کے حامی ہیں کہ بلوچستان میں موجود افغانستان کے تمام مفتوحہ علاقوں کو بھی کے پی کے صوبے میں شامل کیا جائے تاکہ پاکستان کے اندر تمام پختون علاقوں پر مشتمل ایک متحدہ صوبہ ہو۔ مفتوحہ علاقوں کا بلوچستان میں مزید شامل رہنا خصوصاً انتظامی یا سیکورٹی کی وجوہات بناء پر درست نہیں ۔ پاکستان کے ایک وفاقی ریاست میں پختون قوم کی صرف ایک ہی وفاقی اکائی ہوگی۔ موجودہ صورت حال میں تین اکائیوں سے سینٹ اور قومی اسمبلی میں پختونوں کی نمائندگی ہورہی ہے، اس کو فوراً ختم کیا جائے صرف اور صرف ایک اکائی سے ان کو نمائندگی دی جائے۔ اس لئے ہم اس مطالبے کی حمایت کرتے ہیں کہ مفتوحہ علاقوں کو بلوچستان سے نکال کر کے پی کے میں شامل کیا جائے۔ یہ علاقے صرف ڈھائی اضلاع پر مشتمل ہیں یہ دو اضلاع لورالائی اورژوب جبکہ آدھاضلع پشین ہے جن کی کل آبادی بلوچستان کا صرف 20فیصد اور علاقہ صرف12فیصد۔ یہ تمام علاقے سابقہ خاران ضلع کے برابر ہیں۔ ون یونٹ کے دوران قومی اسمبلی کی کوئٹہ ڈویژن کی صرف ایک نشست تھی۔ 1962میں یہ نشست مرحوم نواب خیربخش مری کے پاس تھی اور بعد میں مرحوم نبی بخش زہری یہاں سے عوامی نمائندہ بنے۔ کوئٹہ ڈویژن میں بھی پختونوں کی اکثریت نہیں تھییعنی یہاں بھی وہ اقلیت میں تھے۔ اب افغان مہاجرین کے بل بوتے پراڑھائی اضلاع پر مشتمل آبادی کو بقیہ بلوچستان کے برابر ماننے کا مطالبہ کیا جارہا ہے جو سراسر ناانصافی ہے۔ مری اور بگٹی قبائل بلوچوں کے دو بڑے قبائل ہیں جن کی تعداد موجودہ دور میں 20لاکھ کے لگ بھگ ہے 1970کے انتخابات میں نواب مری کو ڈیڑھ لاکھ ووٹ صرف ان دو قبائل سے ملے تھے۔