|

وقتِ اشاعت :   February 9 – 2017

اسلام آباد: سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع میں ایک ریاستی ادارے کی طرف سے لوگوں کی زمینیں حاصل کرنے‘ سبکدوش افسران کو الاٹ کرنے کے معاملات زیر بحث آگئے‘ اتفاق رائے سے بلوچستان کے علاقے لورا لائی میں چھاؤنی میں 31خاندانوں کے گھروں کو مسمار کرنے کی تحقیقات کیلئے تین رکنی سب کمیٹی قائم کردی گئی ‘ کمیٹی علاقہ کا دورہ کرے گی متاثرین کے علاوہ سٹیشن کمانڈر اور دیگر حکام سے ملے گی‘ سینیٹر فرحت اﷲ بابر نے سوال اٹھایا کہ کسی کے گھر کو اس کے کردار کی بنیاد پر کیسے مسمار کیا جاسکتا ہے؟ کیا کل کو اس بنیاد پر ہمیں بھی پارلیمینٹ سے بیدخل کردیا جائے گا قائمہ کمیٹی نے اتفاق رائے سے وزارت دفاع کی جون 2017 تک ویسٹرج راولپنڈی سے تمام 32خلاف ضابطہ سکولز و دیگر تعلیمی اداروں کو ختم کرنے کے نوٹس کی توثیق کردی۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس کی کارروائی کے دوران ایک ریاستی ادارے پر تنقید پر ماحول میں تلخی بھی پیدا ہوگئی تھی اور سیکرٹری دفاع کو بھی سخت الفاظ استعمال کرنے پڑ گئے تھے۔ بدھ کو قائمہ کمیٹی کا اجلاس قائمقام چیئرمین لفیٹیننٹ جنرل (ر) صلاح الدین ترمذی کی صدارت میں پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا۔ لورا لائی بلوچستان میں چھاؤنی کے علاقہ سے سویلین کو بیدخل کرنے کے خلاف سینیٹر محمد اعظم خان موسیٰ اور سینیٹر عثمان خان کاکڑ کی طرف سے اٹھائے گئے نکتہ اعتراضا ت کے تحت متعلقہ معاملے کا جائزہ لیا گیا۔ اس علاقے سے بیدخل خاندان 100سال سے قبل سے آباد تھے سینیٹر عثمان خان کاکڑ نے کہا کہ فورسز نے بچوں اور خواتین کی موجودگی میں گھروں کو مسمار کردیا اور پیغام دیا گیا کہ اس اقدام پر کوئی اعتراض نہ کرے لورالائی کی ان متاثرہ خواتین بچوں نے ایک ہزار کلومیٹر دور آکر اسلام آباد میں شدید سردی میں احتجاج کیا۔ چیئرمین سینٹ نے معاملہ کا نوٹس سیکرٹری دفاع سے بات میں کیا مگر تاحال شنوائی نہ ہوسکی۔ متعلقہ حکام نے بتایا کہ انٹیلی جنس رپورٹس کی بنیاد پر 34میں سے 31گھروں کو مسمار کیا گیا ہے سیکرٹری دفاع لیفٹیننٹ جنرل (ر) سید ضمیر الحسن شاہ نے کہا کہ انہوں نے اس معاملے پر سدرن کمانڈر سے بات کی ہے ان گھروں کے حوالے سے تین انٹیلی جنس ایجنسیوں کی ایک جیسی رپورٹس ہیں۔ سینیٹر عثمان خان کاکڑ نے کہا کہ کسی نے کوئی جرم کیا ہے تو اسے عدالت لے کر جاتے جیل میں ڈال دیتے اس کی بنیاد پر لوگوں کو گھروں سے نکالنے کی اجازت کونسا آئین قانون دیتا ہے۔ سینیٹر فرحت اﷲ بابر نے کہا کہ یہ معاملہ وسیع تصویر کا حصہ ہے جس کے تحت فوج زمینیں حاصل کرتی ہے سبکدوش جرنیلوں میں 80 اور 90 ایکڑ زرعی زمین الاٹ کردی جاتی ہے سب اس سلسلے کی کڑی ہے۔ لورا لائی کے معاملے کو انفرادی طور پر نہ دیکھا جائے اگر کسی کا بہنوئی انتہا پسند ہے تو خاندان کا کیا قصور ہے۔ کیا رپورٹس مصدقہ ہوتی ہیں؟ انٹیلی جنس رپورٹس میں تو کہا گیا تھا کہ اسامہ بن لادن پاکستان میں نہیں ہے۔ لورالائی کے سٹیشن کمانڈر نے اپنے اختیار سے تجاوز کیا ہے کیونکہ اقرار نامہ میں بھی لکھا گیا ہے کہ کسی کو بیدخل نہیں کیا جائے گا۔ بیدخلی کے لئے اخلاق اور کردار کو جواز کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ اس کی تشریح کون کرے گا تین انٹیلی جنس رپورٹس ہوں یا تیس اگر خدانخواستہ کل ہمارے کردار پر سوال اٹھادیا گیا تو اقدام کے تحت ہممیں پارلیمنٹ سے بیدخل کردیا جائے گا۔ سٹیشن کمانڈر کا اس قسم کا اختیار تو ایف سی آر میں بھی نہیں ہے۔ وہاں بھی ریاست کے خلاف برسرپیکار ہوئے ہے گھروں کو مسمار کیا جاتا ہے پارلیمنٹ نے سویلین کی ان بیدخلی کے معاملات پر مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا ہے اس لئے لوگ ریاست سے متففر ہوتے ہیں پھر ہم فکر مند ہوتے ہیں کہ شہریوں اور ریاست میں اعتماد کا رشتہ ٹوٹ رہا ہے جب لوگوں کے گھروں کو مسمار کریں گے تو یہی انجام ہوگا۔ پارلیمنٹ کو اس قسم کے حالات سے بچنے کیلئے متعلقہ سٹیشن کمانڈر کے خلاف انضباطی کارروائی کی سفارش کرنی چاہئے اس نے نہ صرف جرم کیا ہے بلکہ ریاستی اداروں کے بارے میں بھی غلط فہمی پیدا کرنے کی بھی کوشش کی ہے ویسے بھی بی فور ایریا وفاقی حکومت کی ملکیت ہوتا ہے جو صرف دفاعی مقاصد کے لئے فوج کو دیا جاسکتا ہے جبکہ یہاں گالف کورسز بنائے گئے ہیں۔ زمینوں کی اس بندر بانٹ کی پالیسی پر پارلینمٹ کو نظر ثانی کرنی چاہئے۔