امریکی ٹی وی چینل سی این این نے گزشتہ دنوں ایک وڈیو چلائی جس میں کوئٹہ شہر کے اندر جعلی ادویات کے کاروبار کو دکھایا گیا جہاں کام کرنے والے ملازمین خوشی خوشی پاؤڈر کیپسول میں بھر رہے ہیں اور پھر یہ پاؤڈر سے بھرے جعلی ادویات کو دکانوں کو سپلائی کیا جارہا ہے۔ اس وڈیو کو دیکھنے کے بعد یہ یقین پختہ ہوگیاکہ بلوچستان میں اکثر ادویات غیر معیاری، جعلی اور غیر رجسٹرڈ ہیں۔ اب اس بات کا انکشاف کوالٹی کنٹرول اتھارٹی کے سیکریٹری نے بھی کیا اور ان کا اندازہ ہے کہ بلوچستان میں 80فیصد ادویات غیر معیاری اور جعلی ہیں۔ اس انکشاف کے بعد حکومت کی ذمہ داری میں بہت زیادہ اضافہ ہوگیا ہے کہ وہ پہلے اس بات کو یقینی بنائے کہ بلوچستان حکومت کے تمام اسپتالوں اور صحت مراکز میں صرف اور صرف اصلی، معیاری اور معروف کمپنیوں کی ادویات فراہم کی جائیں گی۔ حکومت آج تک غیر معیاری، جعلی اور غیر رجسٹرڈ ادویات بڑی تعداد میں خریدتی رہی ہے اور پھر ان کو اسپتالوں اور صحت مراکز کو فراہم کی جاتی رہی ہے۔ اس میں اب دو رائے نہیں ہے کہ سرکاری اسپتالوں میں اصلی اور معیاری ادویات ناپید ہیں۔ یہاں تک کہ نامی گرامی بڑے اسپتالوں میں بھی جعلی اور چینی ساختہ غیر معیاری سٹنٹ فراہم کیے جارہے ہیں جس کے خلاف نامور ڈاکٹروں نے احتجاج تک کیا ہے۔ گزشتہ روز ایک خبر ایک انگریزی روزنامہ میں چھپی کہ گزشتہ دنوں سات قیدی مرگئے، وہ سب بیمار تھے شک یہ ہے کہ ان کو غیر معیاری یا جعلی ادویات فراہم کی گئی تھیں۔ تاہم متعلقہ حکام نے سیمپلز قبضہ میں لے لی ہیں اور ان کا تجزیہ کیا جائے گا کہ یہ تمام ادویات جعلی اور غیر معیاری تو نہیں ہیں۔ گزشتہ دنوں پنجاب کے وزیر صحت نے صوبے کے مختلف علاقوں میں خود چھاپے مارے اور کم سے کم درجن بھر دواساز فیکٹریوں کو اس لئے بند کیا کہ وہ بغیر اجازت کے دوائیاں تیار کررہے تھے اور ان کو بلاکسی روک ٹوک کے فروخت بھی کر رہے تھے۔ ان میں اکثر دوائیاں غیر معیاری اور حکومت پاکستان کے پاس رجسٹرڈ نہیں تھیں۔ بلوچستان کی بات کی جائے تو یہاں بھی ہر علاقے میں بڑی تعداد میں ادویات کی دکانیں قائم کی گئی ہیں سب کے سب کاروبار کررہے ہیں کوئی روک ٹوک نہیں۔ کوئٹہ شہر میں ادویات کی ہزاروں دکانیں کام کررہی ہیں۔ حکومت یہ تصدیق کرے کہ وہ لائسنس یافتہ ہیں اور لائسنس یافتہ دکاندار اپنے لائسنس نمایاں جگہ پرآویزاں کریں تاکہ گاہک کو نظر آئے کہ یہ دکان اصلی اور معیاری ادویات فروخت کررہا ہے۔ عام شہریوں کو ہمیشہ یہ شک رہا ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں ادویات کی دکانیں کیوں کھولی گئیں ہیں۔تو انہیں معلوم ہوا کہ بدکردار لوگوں کے لیے اس بزنس میں منافع کی شرح بہت زیادہ ہے اور اکثر لوگ اسمگلنگ شدہ، غیر معیاری، جعلی اور غیر رجسٹرڈ ادویات کی فروخت میں بے پناہ دولت کمارہے ہیں۔ سول اسپتال کے سامنے سڑک پر قائم ادویات کی فروخت میں بے پناہ دولت کمائی جارہی ہے،اسی ایک سڑک پر ادویات کی سینکڑوں دکانیں کام کررہی ہیں بلکہ ہر دوسری دکان میں ادویات فروخت ہورہی ہیں ۔اس لئے حکومت پر لازم ہے کہ وہ عوام الناس کو یہ بتائے کون سی دکان باقاعدہ لائسنس یافتہ اور اس کا ملازم تعلیم یافتہ اور تربیت یافتہ ہے اور ا سکے پاس قانونی ڈگری موجود ہے۔ باقی تمام دکانوں کو جو ادویات کا کاروبار کررہے ہیں ان کو فوراً سیل کیا جائے اور ان کی جعلی اور غیر معیاری ادویات کو ضبط کرکے ضائع کیا جائے ۔چونکہ یہ بات سرکاری سطح پر سامنے آچکی ہے کہ جعلی ادویات کا کاروبار وسیع پیمانے پر جاری ہے لہذا حکومت ان غیر معیاری، جعلی اور غیر رجسٹرڈ ادویات کے خلاف کارروائی کرے اور سرکاری ڈاکٹروں پر یہ لازم ہے کہ وہ جعلی اور غیر معیاری ادویات کی نشاندہی کریں تاکہ اس عذاب سے لوگوں کو نجات دلائی جاسکے۔ اس سے زیادہ اہم ترین بات یہ ہے کہ حکومت صرف معیاری، اصلی اور معروف کمپنیوں سے ادویات خریدے۔ تمام غیر معروف کارخانوں سے ادویات کی خریداری فوری طور پر بند کی جائے تاکہ دور دراز کے رہنے والے لوگ سرکاری، معیاری ادویات سے فائدہ اٹھائیں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ وزیراعلیٰ خود اس کی نگرانی کریں گے اور اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ دور دراز علاقوں کے رہنے والوں کو بھی سرکاری اسپتالوں میں اچھے علاج کی سہولیات کے ساتھ ساتھ اچھی اور معیاری ادویات فراہم ہوں گی یہ اچھی حکمرانی کی ایک نشانی ہے کہ لوگوں کو اچھے علاج کے ساتھ معیاری ادویات بھی فراہم کی جائیں۔