اب جبکہ یہ اصولی فیصلہ ہوگیا ہے کہ فاٹا کے تمام علاقوں کو کے پی کے صوبے میں ضم کیا جائے گا۔ اس بات کی تصدیق فوج کے سربراہ اور کے پی کے گورنر نے بھی کی ہے۔ گزشتہ دنوں اس مسئلے کو وفاقی کابینہ میں زیر بحث نہیں لایا گیا تھا۔ وزارت خزانہ نے اس مد میں فنڈز کی فراہمی میں مشکلات کا ذکر کیا تھا جس کی وجہ سے عین وقت میں اس مسئلے کو وفاقی کابینہ کے ایجنڈے سے ہٹادیا گیا تھا۔ وزارت خزانہ نے مالی مشکلات کی وجہ سے مہلت بھی مانگی تھی۔ ایک اور اچھی خبر یہ ہے کہ سندھ، پنجاب اور کے پی کے کی حکومت نے اس بات کی بھی حامی بھرلی ہے کہ ان کے صوبے اپنے حصے کا ایک ایک فیصد مالیاتی کمیشن کا حصہ اس منصوبہ پر عملدرآمد کے لیے دیں گے تاکہ فاٹا کو کے پی کے میں ضم کیا جائے اور عوام الناس کو ان کے تمام انسانی اور جمہوری حقوق واپس دیئے جائیں اس طرح فاٹا کے لوگوں کو ملک کے دیگر لوگوں کی طرح تمام شہری حقوق اور سہولیات بھی فراہم ہوں۔ یہ افسوسناک بات ہے کہ لاکھوں قبائلی عوام کو بنیادی انسانی حقوق سے 70سالوں سے محروم رکھا گیا ہے اور اب کہیں جاکر یہ موقع آیا ہے کہ ان کے تمام حقوق بحال ہورہے ہیں۔ فاٹا کے انضمام کے بعد جب پہلے انتخابات ہوں تو نیا وزیراعلیٰ متفقہ طور پر فاٹا کے علاقے سے ہو تاکہ انضمام کا عمل زیادہ تیز تر ہوجائے اور کے پی کے کی صوبائی حکومت ایک کثیر رقم ان علاقوں میں اسکول، اسپتال، تعلیمی ادارے اور دیگر رفاعی اداروں کی تعمیر کے لیے مختص کرے تاکہ فاٹا اور کے پی کے کے درمیان فرق ختم ہوجائے اور ترقی کی رفتار تیز تر ہو۔ اس دوران سب سے اہم بات یہ ہوگی کہ بلوچستان کے تمام مفتوحہ علاقوں کو اگر روز اول سے شامل کیا جائے تو یہ پاکستان اور اس کی عوام کے لیے نیک شگون ہوگا۔ افغانستان کے مفتوحہ علاقوں کو انگریز نوآبادیات نے جان بوجھ کر بلوچستان میں شامل کیا تھا۔ اس کی انتظامی اور سیکورٹی وجوہات تھیں۔ ان کو بلوچ علاقوں سے الگ نہیں رکھا گیا تھا گو کہ وہ تاریخی طور پر بلوچستان کے کبھی بھی حصہ نہیں رہے تھے صرف سامراجی مقاصد کے تحت ان کو بلوچستان میں شامل کیا گیا تھا۔ بلوچ نے کبھی ان علاقوں اور ان کے وسائل پر دعویٰ نہیں کیا تھا اور نہ اب کررہے ہیں۔ یہ افغانستان کے مفتوحہ علاقے ہیں جن کو جنرل یحییٰ خان نے انتظامی اور سیکورٹی وجوہات کی بناء پر بلوچستان میں شامل کئے تھے جو غلط اور بلاجواز تھے۔ ان تمام علاقوں کو روز اول سے فاٹا کے ایک ایجنسی کے طور پر رکھا جاتا تو بہتر تھا لیکن جنرل یحییٰ خان اور اس وقت کی فوجی آمریت نے برطانوی سامراجی پالیسی پر عمل کیا اور اس کو بلوچستان کا ایک انتظامی حصہ بناکر رکھ دیا۔ اب جبکہ فاٹاکے تمام علاقے کے پی کے میں ضم ہورہے ہیں تو ہم یہ مشورہ دیتے ہیں کہ ان مفتوحہ علاقوں کو بھی عظیم تر پختون صوبہ کا حصہ بنائیں اور ملک بھر کے پختونوں کو صرف اور صرف ایک صوبہ میں رکھیں تاکہ ان کی وفاق میں نمائندگی بھرپور اور موثر ہو۔ آج نہیں تو کل یہ کام کرنا پڑے گا، یہ بلوچستان کے حصے نہیں ہیں ان کو ایک دن بلوچستان چھوڑنا پڑے گا۔ بہتر یہ ہوگا اس موقع سے فائدہ اٹھایا جائے اور اس مسئلے کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے حل کیا جائے ۔ ایک اور خوشی کی بات یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمان نے اس انضمام کیحمایت کردی اور یہ اعلان کردیا کہ وہ اس کے مخالف نہیں ہیں وجہ یہ ہے کہ اب یہ فیصلہ ہوگیا ہے کہ فاٹا کو کے پی کے میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ضم کیا جائے گا تو مولانا فضل الرحمان نے ریاستی فیصلے کی مخالفت بند کردی۔ اب صرف محمود خان اچکزئی پورے پاکستان میں اکیلے رہ گئے ہیں۔ وہ ایک زیرک سیاستدان ہیں وہ مکمل خاموشی کو بہترین ہتھیار سمجھتے ہیں کیونکہ وہ ریاستی فیصلوں کی مخالفت کی استطاعت نہیں رکھتے۔ وہ مقامی کھلاڑی ہیں بطور بین الاقوامی کھلاڑی وہ شہرت نہیں رکھتے اس لئے وہ مقامی اور غیر اہم معاملات پر بولتے رہیں گے پھر محمود خان اچکزئی کا فاٹا میں کوئی اسٹیک نہیں ہے ان کا کوئی فائدہ اور نقصان نہیں ہے۔ انہوں نے یہ موقف صرف اور صرف شہرت کے لیے اختیار کیا تھا۔بہتر ہوگا کہ وہ خاموش رہیں اور آنے والے دنوں کا انتظار کریں تو ان کے لئے بہتر ہے۔