|

وقتِ اشاعت :   February 15 – 2017

اسلام آباد:ایوان بالا کی منتخب ارکان کی کمیٹی نے اطلاعات تک رسائی کے بل کو متفقہ طور پر منظور کرلیا، بل کو سینیٹ کے آئندہ سیشن میں منظوری کیلئے پیش کیا جائے گا،بل میں عوامی مقامات پر سی سی ٹی وی کیمرہ کے فوٹیج کے حصول کی تجویز کو شامل کرنے پر اتفاق،20 سال پرانا ریکارڈ ہر صورت منظر عام پر آئے گا، کسی بھی لاپتہ شخص کی معلومات متعلقہ ادارہ 3 دن میں تحریری طور پر جواب دینے کا پابند ہوگا، کسی بھی ادارے میں بدعنوانی اور قواعد کی خلاف ورزی ہر اس ادارے سے وابستہ کوئی بھی شخص نشاندہی کرسکے گا،نشاندہی کرنے والے شخص کو قانونی تحفظ حاصل ہوگا اور اس کے خلاف قانونی کاروائی نہیں ہوسکے گی، وزیر مملکت مریم اورنگزیب نے کمیٹی اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ اطلاعات تک رسائی کے بل کی منظوری وزیراعظم محمد نواز شریف اور مسلم لیگ( ن) کے انتخابی منشور کے وعدے کی تکمیل ہے ، بل کی تشکیل میں منتخب نمائندوں ،حکومت ،پارلیمانی کمیٹیاں ،وکلاء اور سول سوسائٹی کا اہم کردار ہے،اطلاعات تک رسائی کا قانون اور جمہوریت ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں،ا نفارمیشن کمیشن قانون کے تحت ایک آزاد اور خودمختار ادارہ ہوگا،چیئرمین سلیکٹ کمیٹی فرحت اللہ بابر نے کہا کہ اس بل سے عام آدمی کو معلومات تک زیادہ سے زیادہ رسائی حاصل ہوگی، یہ انسانی حقوق سے متعلق بہت بڑی پیش رفت ہے، لاپتہ افراد سے متعلق یہ قانون بڑا ہی معاون ثابت ہوگا۔ سینیٹ سلیکٹ کمیٹی برائے رائٹ ٹو انفارمیشن بل کا اجلاس منگل کو چیئرمین کمیٹی سینیٹرفرحت اللہ بابر کی صدارت میں پپس کانفرنس ہال میں ہوا جس میں سینیٹرز شبلی فراز، محمد جاوید عباسی ، پرویز رشید ، سید مظفر حسین شاہ، خوش بخت شجاعت ، کریم احمد ، خواجہ اور محمد داؤد خان اچکزئی کے علاوہ وزیر مملکت اطلاعات ونشریات مریم اورنگزیب اور وزارت اطلاعات ونشریات و قانون کے اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔ اجلاس میں رائٹ ٹو انفارمیشن بل کے شق وار مختلف پہلووں پر غور کیا گیا، بل میں عوامی مقامات پر سی سی ٹی وی کیمرہ کے فوٹیج کے حصول کی تجویز کو شامل کرنے پر اتفاق کر لیا گیا۔ عوامی مقامات کے کیمروں سے فوٹیج کے حصول کی تجویز تحریک انصاف کے سینیٹر شبلی فراز نے دی، تجویز کے مطابق کرائم کے واقعہ سے متاثرہ فرد متعلقہ کیمرہ سے فوٹیج حاصل کرسکے گا۔وزیر مملکت اطلاعات مریم آورنگزیب نے بل کی تشکیل میں سابق وزیر اطلاعات پرویز رشید کے کردار کی تعریف کی۔ سینیٹرپرویز رشید نے مریم اورنگزیب سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ وزیر کو تو کچھ معلوم نہیں ہوتا سب کچھ تو بیورکریسی جانتی ہے۔مریم اورنگزیب نے کہا کہ آج کل ایسے قوانین بن رہے ہیں کہ رولز کی ضرورت نہیں رہتی۔ اجلاس میں چیف انفارمیشن کمشنر اور کمشنرز کے علاوہ کمیشن میں گریڈ 16 سے اوپر کے افسران اور اسٹاف کی تعیناتی پبلک سروسز کمیشن کے ذریعے کرنے کی تجویز پر بھی اتفاق کیا گیا۔ سینٹ کی منتخب ارکان کی کمیٹی نے رائٹ ٹو انفارمیشن بل کو متفقہ طور پر پاس کرلیا۔بل کے مطابق 3 رکنی انفارمیشن کمیشن کے ارکان کا تقرر وزیراعظم کریں گے، کمیشن کا ایک رکن عدلیہ ایک بیوروکریسی اور ایک سول سوسائٹی سے لیا جائیگا، کمیشن کے کسی رکن کی عمر 65 سال سے زائد نہیں ہوگی،،کمیشن کے ممبران کوہٹانے کا اختیار قومی اسمبلی اور سینٹ کی قائمہ کمیٹیوں کے پاس ہوگا، انفارمیشن کمیشن کے ممبران کی تقرری اور اختیارات اور جان بوجھ کر ریکارڈ کو ضائع کرنے کے حوالے تعزیراتی کاروائی ہو گی، وہ تمام ریکارڈ جو 20 سال سے زیادہ پرانہ ہو ان پر آر ٹی آئی قانون کا اطلاق نہیں ہوگا،20 سال پرانا ریکارڈ ہر صورت منظر عام پر آئے گا، کسی بھی لاپتہ شخص کی معلومات متعلقہ ادارہ 3 دن میں تحریری طور پر جواب دینے کا پابند ہوگا، کسی بھی ادارے میں بدعنوانی اور قواعد کی خلاف ورزی ہر اس ادارے سے وابستہ کوئی بھی شخص نشاندہی کرسکے گا،نشاندہی کرنے والے شخص کو قانونی تحفظ حاصل ہوگا اور اس کے خلاف قانونی کاروائی نہیں ہوسکے گی۔چیئرمین کمیٹی سینیٹرفرحت اللہ بابر نے کہا کہ معلومات تک رسائی کے بل 2016کا کمیٹی کے گذشتہ تین اجلاسوں میں شق وار تفصیل سے جائزہ لیا ہے۔ اراکین کمیٹی کی تجاویز کا تفصیلی جائزہ لے کر ڈرافٹ رپورٹ تیار کی ہے۔ اس بل کی تیاری میں وزارت اطلاعات و نشریات نے بھرپور تعاون کیا ہے اور کوشش کی گئی ہے کہ بل کو زیادہ سے زیادہ موثر بنایا جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ عوام مستفید ہوسکے۔ یہ بل انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ اور انسانی حقوق کے معاملات میں اس سے بہت مدد حاصل کی جاسکے گی۔ ڈارفٹ رپورٹ کی متفقہ طورپر منظور ی دی گئی اور اس بل کو حکومت پارلیمنٹ ہاؤس میں حکومتی بل کے طور پر پیش کر کے منظوری حاصل کرے گی۔اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر مملکت برائے اطلاعات مریم اورنگزیب نے کہا کہ اس بل پر حکومت نے بہت کام کیا اور جو وعدہ کیا وہ پورا کیا، اس بل سے ہرقسم کے ریکارڈ اور مالی امور کی معلومات حاصل کی جاسکیں گی، کمیشن کے اراکین کو سول سوسائٹی سے لیا جائے گا اور اراکین کے انتخاب کا طریقہ کار ہوگا،انفارمیشن کمشنر کا انتخاب پارلیمنٹ کرے گی، 16 گریڈ سے آوپر کے افسران و اسٹاف ایف پی ایس سی کے ذریعہ سے تعینات ہونگے،انفارمیشن کمشنر کے لئے کسی ریٹائرڈ جج کو تعینات کیا جائے گا ، کمیشن میں سول سوسائٹی، وکلا اور ماس کمیونیکشن سے تعلق رکھنے والے افراد کو شامل کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی سلامتی اور قومی مفاد کو اس قانون کے ذریعے محفوظ بنایا گیا ہے،عالمی تعلقات میں بھی جن چیزوں سے تعلقات متاثر نہیں ہوتے وہ پبلک کئے جاسکیں گے، اس بل کے بعد قومی سلامتی ،نیشنل انٹرسٹ اور فارن ریلیشن سے متعلق قومی مفاد سے متعلق حساس معلومات کو عام نہ کیاجاسکے گا، اگر افواج پاکستان نے کسی معلومات کو قومی مفاد میں مخفی رکھاہے تواس کوتحفظ کی شق کو برقرار رکھاگیاہے،اگر کوئی کمرشل ونیچر ہے جس سے قومی مفاد کو خدشات لاحق نہ ہوں اس کو عام کیا جاسکے گا، بین الاقوامی تعلقات سے متعلق قومی مفاد سے ٹکراو نہ ہونے کی صورت میں معلومات کا تبادلہ کیاجاسکے گا، بل کو سینیٹ کے آئندہ سیشن میں منظوری کیلئے پیش کریں گے ۔مریم اورنگزیب نے کہا کہ اطلاعات تک رسائی کے بل کی منظوری وزیراعظم محمد نواز شریف اور مسلم لیگ ن کے انتخابی منشور کے وعدے کی تکمیل ہے ،یہ حکومتی بل ہے جو سینیٹ کی سلیکٹ کمیٹی سے متفقہ طور پر منظور ہوا ہے، بل کی تشکیل میں منتخب نمائندوں ،حکومت ،پارلیمانی کمیٹیاں ،وکلاء اور سول سوسائٹی کا اہم کردار ہے، بل کا مقصد تمام امور میں شفافیت کو یقینی بنانا اور گورنس کی بہتری ہے، اطلاعات تک رسائی کا قانون اور جمہوریت ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں،کچھ صوبوں میں اس بل کا اطلاق پہلے سے موجود ہے، نفارمیشن کمیشن قانون کے تحت ایک آزاد اور خودمختار ادارہ ہوگا،،پاکستان کی قومی سلامتی مفاد اور ایسے معاملات جن سے عالمی تعلقات متاثر ہوں ان کو تحفظ حاصل ہے۔ چیئرمین سلیکٹ کمیٹی رائٹ ٹو انفارمیشن بل فرحت اللہ بابر نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس بل سے عام آدمی کو معلومات تک زیادہ سے زیادہ رسائی حاصل ہوگی، جس معلومات کو استثنی ہوگا اسکے حصول کے لئے اپیل کی جاسکے گی، اپیل باڈی ایسی ہو جو حکومت سے آزاد ہو، قومی سلامتی کے نام پر بہت ساری معلومات شہریوں کو مہیا نہیں کی جارہی تھیں، کسی دستاویز پر حساس اور خفیہ لکھ کر اسے پبلک نہیں کیا جا سکتا تھا، کسی معلومات کو استثنی قرار دینے کے لئے تین کام کرنا ہوں گے، مجاز آفسر لکھ کر بتائے گا کہ اس معلومات کو کیوں استثنی دیا گیا ہے، مجاز افسر قومی سلامتی اور قومی مفاد میں توازن پیدا کرے گا اور جوہات بتائے گا، اگر کسی سیکورٹی کے ادارے میں بھی کرپشن ہوئی تو اس معلومات کو روکا نہیں جاسکے گا، بنیادی انسانی حقوق سے متعلق کسی معلومات کو روکا نہیں جاسکے گا،کسی شخص کو اگر سیکورٹی ادارے اٹھا کر لے جائیں اور مار دیا تو اسے نیشنل سیکورٹی کا تقاضہ نہیں کہا جائے گا، عام معلومات میں ایک ماہ جبکہ بنیادی انسانی حقوق کی معلومات میں 3 دن کا وقت ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ یہ انسانی حقوق سے متعلق بہت بڑی پیش رفت ہے، لاپتہ افراد سے متعلق یہ قانون بڑا ہی معاون ثابت ہوگا،آج کمیٹی نے اپنی رپورٹ کی حتمی منظوری دیدی ہے ، اب حکومت اس بل کو حکومتی بل بنا کر پارلیمنٹ پیش کرے گی۔(ار)