اسلام آباد:مشتاق رئیسانی کرپشن کیس میں سابق صوبائی مشیر خزانہ خالد لانگو کی درخواست ضمانت پر سماعت کے دوران جسٹس دوست محمد خان نے ریمارکس دیئے کہ کر پشن ملکی وسائل کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے ،کرپشن کے ہوتے ہوئے معیشت بہترکیسے ہوسکتی ہے، منگل کو کیس کی سماعت جسٹس دوست محمد کی سربراہی میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس مقبول باقر پر مشتمل تین رکنی بنچ نے کی ، مقدمہ کی سماعت شروع ہوئی تو عدالت نے ملزم خالد لانگوکوہسپتال میں وی وی آئی پی کمرہ دیئے جانے پر سخت برہمی کا اظہار کیا اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ ملک میں کوئی بھی وی وی آئی پی نہیں ہونا چاہیے ،ملزم کا ٹرائل ہورہا ہے،اسے وی وی آئی پی پروٹوکول کیوں دیا گیا ؟ کیابلوچستان حکومت کوعدالتی فیصلوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا؟بظاہرنیب اپنا قانون ملزمان سے سودے بازی کیلئے استعمال کرتاہے،تاریخ میں ایسا کیس کبھی سامنے نہیں آیا جس میں برآمد کی گئی رقم گننے کیلئے مشینیں لگانا پڑی ہوں ، لیکن رنگے ہاتھوں پکڑے جانے کے باوجود ریفرنس دائر نہیں ہوا،جسٹس دوست محمد نے ریمارکس دیئے کہ کرپشن ملکی وسائل کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے ،کرپشن کے ہوتے ہوئے معیشت بہترکیسے ہوسکتی ہے،نیب کا تفتیشی محکمہ انتہائی کمزورہے، پراسیکیوٹر جنرل نیب نے عدالت کو بتایا کہ خالد لانگو لوکل گورنمنٹ گرانٹ کمیشن کے چیئر مین بھی تھے ،خالد لانگو نے خالق آباد اور مچھ یونین کونسل کے ترقیاتی منصوبوں کے لیے 2 ارب 31 کروڑ کی منظوری دی ،اموقع پر صرف پانچ کروڑ خرچ ہوئے ہیں اس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ خالق آباد یونین کونسل کی آبادی اکیس ہزار ہے لیکن پھر بھی اربوں کے ترقیاتی فنڈز جاری ہوئے ،یہ پاکستان کی خوش قسمت یونین کونسل ہوگی پھر، جسٹس دوست محمد نے استفسار کیا کہ خالد لانگو کو کب مشیر خزانہ بنایا گیااور بطور مشیر خزانہ انہوں نے کتنوں منصوبو ں کے لیے فنڈز کی منظوری دی ، جن پروجیکٹس کے لیے پیسے جاری ہوئے وہ موقع پر موجود بھی ہیں؟ اس پر نیب کے تحقیقاتی افسر نے عدالت کو بتایا کہ خالد لانگو اکتوبر 2013 سے مشیر خزانہ تھے ،خالد لانگو کے فنڈز منظوری کے معاملہ کی تحقیقات کر رہے ہیں، اس پر جسٹس دوست محمد نے کہا کہ تحقیقات مکمل نہیں ہو ئی تھی تو مشتاق رہیسانی سے پلی بارگین کی کیوں کی گئی اسکی کیا جلدی تھی ؟ جبکہ جسٹس مقبول باقر کا کہنا تھا کہ نیب نے ملزم کو مئی سے حراست میں لے رکھا ہے ،اتنے عرصہ سے ریفرنس فائل نہ ہونا نیب کی بد نیتی کیوں نہ سمجھا جائے؟نیب کو تفصیل دینی چاہیے تھی کہ خالد لانگو کے دور میں کتنے فنڈز جاری ہوئے، ؟ جبکہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پراسیکیوٹر جنرل نیب سے استفسار کیا کہ اب تک ریفرنس دائر کیوں نہیں ہوا ، اس پر اسیکیوٹر جنرل نیب نے موقف اختیار کیا کہ دوسے تین روز میں ریفرنس دائر کردیں گے ،قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سوال یہ تھا کہ اب تک کیوں دائر نہیں کیا گیا ،آپ جواب نہیں دے سکتے تو چئیرمین نیب کو بلالیں، چیئرمین نیب نے عدالت کو بتایا کہ ٹرائل کورٹ نے ابتک پلی بارگین کی درخواست پرفیصلہ نہیں کیا،گزشتہ روز ملزمان کے خلاف ریفرنس کی منظوری دے دی گئی ہے ،پراسیکیوٹرجنرل اور متعلقہ ڈی جی کی مشاورت سے فیصلہ کرتاہوں،ضابطے کے تحت قانونی مشاورت کا پابندہوں، وائٹ کالرکرائم کی تحقیقات میں وقت لگتاہے،نیب نے اس کیس میں شاندار کردار اداکیاہے یہ کرپشن کی تاریخ کاسب سے بڑااسکینڈل ہے، جبکہ ملزم خالد لانگو کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے دلائل دیتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ فنڈ کے اجرا ء میں قوائد کی خلاف ورزی ہوئی ہے تو خالدلانگو ذمہ دار نہیں ہیں ،قوائد کی خلاف ورزی ہو تو ذمہ داری وزیر پر نہیں سیکرٹری پرعائد ہوتی ہے ،خالد لانگونے اختیارات کاغلط استعمال کیانہ ہی کوئی مالی فائدہ اٹھایا ،9ماہ سے میرے موکل کو غیرقانونی حراست میں رکھاہواہے،عدالت میرے موکل کی بیماری کوبھی سامنے رکھے ، اس پر جسٹس دوست محمد نے ریمارکس دیئے کہ موکل بیمار ہے توبری امام جا کر 5 دیگیں چڑھائیں اللہ شفاء دے گا ۔ عدالت عظمیٰ نے وکلاء کے دلائل تفصیل سے سننے کے بعد ملزم خالد لانگو کی درخواست ضمانت خارج کردی جبکہ اس حوالے سے تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیاجائے گا۔