ملک میں ایک بارپھر دہشت گرد سراٹھاتے نظرآرہے ہیں، پہلے کراچی میں کریکر حملے کے بعد سماء ٹی وی کی ڈی ایس این جی پر فائرنگ کی گئی جس کے نتیجے میں اسسٹنٹ انجینئر تیمور جاں بحق ہوگئے۔ لاہور اور کوئٹہ میں بیک وقت دہشت گردی کی گئی ، لاہور میں خود کش حملہ میں پولیس افسران کو نشانہ بنایاگیا جس میں سینئرافسران سمیت دیگر جاں بحق ہوگئے، کوئٹہ میں سریاب پل کے قریب بم نصب کیا گیا جسے نڈر بہادر بی ڈی ایس اے ایس آئی عبدالرزاق نے ناکارہ بنانے کی کوشش کی مگر دھماکہ خیز مواد پھٹ گیا جس کے نتیجے میں عبدالرزاق سمیت دو اہلکار شہید جبکہ 16افراد زخمی ہوئے۔ پشاور شہر میں دہشت گردی کی گئی جس کے نتیجے میں چار افراد جاں بحق ہوئے ابتدائی طور پر یہ کہاجارہا ہے کہ جج کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی اور حملہ خود کش تھا۔ ان واقعات کو مد نظر رکھتے ہوئے یہی نتیجہ اخذ کیاجاسکتا ہے کہ دہشت گردوں کا مقصد ملک میں انتشار اورخوف وہراس پھیلانا ہے وہ نہ صرف سیکیورٹی فورسز،اہم شخصیات بلکہ عوام کو بھی نشانہ بنارہے ہیں جس میں صحافی برادری بھی شامل ہے۔ آپریشن ضرب عضب اور کراچی آپریشن کی کامیابی کے بعد دہشت گرد وں کی کمر ٹوٹ چکی ہے ان کے ٹھکانے مسمار ہوچکے ہیں ملک کے کسی کونے میں ان کو سرچھپانے کی جگہ نہیں مل رہی ۔ مگر حالیہ دہشت گردی کی لہر نے ایک بار خوف کا ماحول بنانے کی کوشش کی ہے اس حوالے سے سول وعسکری قیادت غور کررہی ہے کہ مزید سخت قدامات اٹھائے جائیں تاکہ بدامنی پر قابو پایاجاسکے۔ملک میں ا من قائم کرنے کیلئے نیشنل ایکشن پلان کا جائزہ، نیکٹا کو مزید فعال بناکر دہشت گردوں کے خلاف مؤثر کارروائی کی جاسکے۔ اس حوالے سے اعلیٰ سطحی اجلاس بھی منعقد ہواجبکہ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اس بات کا برملا اظہار کیا ہے کہ دہشت گردوں کو کیفر کردار تک پہنچایاجائے گا جبکہ پی ایس ایل جو اس وقت دبئی میں ہورہی ہے اس کے فائنل میچ کا انعقادلاہور میں کرانے کیلئے پاک فوج کی خدمات حاصل فراہم کیلئے بھی کہا ہے۔ہمیں ان واقعات کو پی ایس ایل سے نہیں جوڑنا چائیے کیونکہ دہشت گردی کے یہ واقعات صرف ایک میچ رکوانے کے لیے نہیں ہوسکتے اس کے اور خطرناک مقاصد ہوسکتے ہیں کیونکہ پاکستان کی طرف بہت سے ممالک دیکھ رہے ہیں وہ نہیں چاہتے کہ پاکستان میں سرمایہ کاری ہو کیونکہ سی پیک کی صورت میں یہاں ایک بہت بڑی سرمایہ کاری ہورہی ہے ۔ سی پیک کی کامیابی سے نہ صرف پاکستان میں معاشی انقلاب برپاہوگا بلکہ خطے میں پاکستان کی حیثیت بدل جائے گی۔ چنانچہ انہی عوامل کے پیش نظر دہشت گردوں کا مقصد یہی ہے کہ پاکستان کو عدم استحکام کی طرف دھکیلا جائے تاکہ ملک میں سرمایہ کاری میں دیگر ممالک دلچسپی نہ لیں۔ اس سے قبل بھی دہشت گردوں نے پوری کوشش کی تھی کہ پاکستان میں دہشت اورانتشار کی کیفیت پیدا کی جاسکے مگر جس طرح دہشت گردوں کے خلاف موثر کارروائی کی گئی اس کے بعد وہ سر نہیں اٹھاسکے۔ اب تمام پہلوؤں پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ دہشت گرد کہاں سے آرہے اور ان کے سہولت کار کون سے عناصر ہیں جو ان کو پناہ دے کر ملک میں دہشت گردی کروارہے ہیں ان کے خلاف انٹیلی جنس بنیاد پر آپریشن کرنے کی اشد ضرورت ہے اور پنجاب کو جو استثناء حاصل ہے وہاں بھی بھر پور آپریشن کیا جائے کیونکہ پنجاب کے بعض علاقے دہشت گردوں کے محفوظ پناہ گائیں بن گئیں ہیں۔ یہ بھی وقت کی اہم ضرورت ہے کہ سیکیورٹی ادارے ایک دوسرے کے ساتھ مکمل تعاون کرکے ان کا قلع قمع کریں۔ دہشت گردمسلسل کارروائیاں کررہے ہیں جس کو روکنے کیلئے بروقت اقدامات کی ضرورت ہے ۔ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے چند ممالک پاکستان میں امن وترقی نہیں دیکھ سکتے اور نہ ہی وہ پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قربانیوں کو تسلیم کرتے ہیں جو ان کی بدنیتی کو ظاہر کرتی ہے۔ پاکستان میں آج جو دہشت گردی کی لہر ہے اس کی وجہ دہشت گردوں کے خلاف پاکستان کی اہم کامیابیاں ہیں جس کی وجہ سے اب وہ عام شہریوں کو نشانہ بنارہے ہیں مگر ایک بات واضح ہے کہ پاک فوج سمیت سیکیورٹی فورسز اور حکومت دہشت گردوں کے خاتمہ کے معاملے میں ایک پیج پر ہیں ۔ اور جو ممالک اس کوشش میں ہیں کہ پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کرتے ہوئے ترقی کی دوڑ میں پیچھے دھکیلا جائے ان کو ناکامی کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔ حکومت،سیکیورٹی ادارے اور عوام کے حوصلے بلند ہیں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابی کے ساتھ روشن پاکستان کا خواب ضرور پورا ہوگا۔ شرپسند ایک بات ذہن نشین کریں کہ بزدلانہ عمل سے وہ پاکستان کو ترقی سے نہیں روک سکتے۔