سیہون شریف سانحہ کے بعد ملک بھر میں دہشت گردوں کے خلاف کریک ڈاؤن کا سلسلہ جاری ہے۔ سیکیورٹی فورسز کی جانب سے اب تک آپریشن کے دوران 100 سے زائد دہشت گردمارے جاچکے ہیں جبکہ متعدد ٹھکانے مسمار کردئیے گئے ہیں۔پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے دوٹوک لفظوں میں دہشت گردوں پر واضح کردیا ہے کہ انہیں منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا ۔ سیہون دھماکے کے بعد سیکیورٹی کے حوالے سے اعلیٰ سطحی اجلاس منعقد ہوئے اور پھر تیزی کے ساتھ کارروائی شروع کی گئی جس کے نتائج بھی سامنے آرہے ہیں۔ سیکیورٹی فورسز کی جانب سے آپریشنز جاری ہیں جبکہ دوسری جانب پاک افغان سرحد کو بھی کسی بھی قسم کی آمد و رفت کیلئے بند کردیاگیا ہے جس کی وجہ سیکیورٹی خدشات ہیں۔ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف بہت قربانیاں دی ہیں اور اس ناسور کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے آپریشن ضرب عضب ،نیشنل ایکشن پلان مرتب کیاگیا جس میں کامیابیاں ملیں اور دہشت گردوں کی کمر توڑ دی گئی مگر حالیہ دہشت گردی کی وجہ یقیناًہمسایہ ممالک کے بارڈر سے آنے والے دہشت گرد ہیں۔تیز ترین سیکورٹی کاروائیوں سے دہشت گردوں کے گرد گھیرا تنگ کیا جارہا ہے اوردہشت گردوں میں کوئی تفریق نہیں کی جارہی ، ان کے خلاف بھرپور کارروائیاں جاری ہیں مگر افسوس کی بات ہے کہ دنیا کے بعض ممالک پاکستان کی قربانیوں سے انکاری ہیں جس کی وجہ بھی دشمن ممالک ہیں مگر آج دنیاپر ایک بات آشکار ہوگئی ہے کہ جس طرح یورپ میں شدت پسندوں نے حملے کیے اسی طرح انہوں نے پاکستان کو نشانہ بنانا شروع کردیا ہے اس سے واضح ہوتا ہے کہ دہشت گرد دنیا میں انتشار پھیلانا چاہتے ہیں ۔دہشت گرد جس طرح اپنا نیٹ ورک پھیلارہے ہیں اس کے لئے ضروری ہے کہ عالمی طاقتیں مل بیٹھ کر اس پر ایک پلان ترتیب دیں اور ازسرنوجائزہ لیں کہ کون سے ممالک امن نہیں چاہتے ۔پاکستان نے پہلے ہی دہشت گردی کے خلاف فرنٹ لائن کا کردار ادا کرنے کیلئے اپنی خدمات پیش کی ہیں جس کے ردعمل میں پاکستان کو نشانہ بنایاجارہا ہے اس لئے عالمی طاقتیں بھی پاکستان کو اعتمادمیں لیتے ہوئے دہشت گردی کے خاتمے کیلئے مزید تعاون کریں تاکہ بدامنی کی لہر پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں نہ لے جو کسی کے مفاد میں نہیں ان ممالک کے بھی مفاد میں نہیں جو دہشت گردوں کی پشت پناہی کررہے ہیں۔ پاکستان میں حالیہ دہشت گردی کی لہر کی بنیادی وجہ پاکستان کو ترقی سے دور رکھنا ہے اس کے لیے ایک سازش کے تحت دہشت گردی کو ہوا دی جارہی ہے اور دہشت گردوں کو باقاعدہ ٹاسک دیکر پاکستان کے مختلف علاقوں میں بھیجا جاتاہے جو یہاں کاروائیاں کرکے بدامنی پھیلاتے ہیں۔دنیا کو ایک بات سمجھنی چاہیے کہ دہشت گردی سب کا مسئلہ ہے صرف ایک کا نہیں اس لئے امن کے قیام کیلئے سب کو ملکر اقوام متحدہ کے فورم میں بیٹھ کر پالیسی واضح کرنا ہوگی۔ پاکستان کاروز اول سے یہی مؤقف ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی پڑوسی ممالک کے ذریعے کی جارہی ہے مگر اسے سنجیدگی سے نہیں لیاجارہا جو افسوسناک ہے کیونکہ اگر اسی طرح یہ رویہ برقرار رہا تو خطہ عدم توازن کا شکار ہوگا جو کسی کے مفاد میں نہیں۔ پاکستان نے امن کے حوالے سے ماضی میں بھی اپنی خدمات پیش کی ہیں اور اب بھی سیاسی وعسکری قیادت اس بات پر متفق ہیں کہ دہشت گردوں کے خلاف بلاتفریق کارروائی کی جائے گی کیونکہ دہشت گردوں کا کوئی مذہب اور قوم نہیں ۔اس لئے جو غلط فہمیاں پیداکی جارہی ہیں ان کو دور کرتے ہوئے رویوں میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے ۔ اس وقت پاکستان دہشت گردوں کے خلاف اکیلے نبرد آزما ہے جس کیلئے ضروری ہے کہ دیگر ممالک بھی امن کے قیام کیلئے پاکستان کے ساتھ بھرپور تعاون کریں تاکہ دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جاسکے اور عالمی برادری بھی اس بات کو سمجھ لے کہ دہشت گردی صرف پاکستان کا نہیں پوری دنیا کا مسئلہ ہے اس لئے اس معاملے پر سب کو ایک پیج پر رہ کر اپنا مؤثر کردار ادا کرنا ہوگا۔