کوئٹہ:بلوچ ہیومن رائٹس آرگنائزیشن کے عہدے داروں نے ضلع خضدار کے علاقے توتک میں 2011کو آپریشن کے دوران ایک ہی خاندان کے ایک درجن سے زیادہ لوگوں کے اغواء ہونے کو چھ سال کا طویل عرصہ مکمل ہونے پر کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس کے دوران شدید تحفظات کا اظہار کیا۔ بی ایچ آر او کے رہنماؤں نے کہا کہ18فروری 2011کو فورسز نے خضدار کے علاقے توتک میں ایک آپریشن کے دوران قلندرانی خاندان کے ایک درجن سے زائد بزرگوں اور نوجوانوں کو اٹھا کر لاپتہ کردیا تھا ۔ لاپتہ افرادکے لواحقین نے انصاف کے تمام اداروں کے دروازے کٹھکٹائے، عدالتوں کا رخ کیا، احتجاج کیے لیکن کسی ادارے نے ان کی داد رسی نہیں کی۔ یہ بات انتہائی درد ناک ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومت لاپتہ افراد کے مسئلے کو کوئی مسئلہ ہی نہیں سمجھ رہے ہیں۔ زمہ داروں کی عدم توجہی کی وجہ سے اس طرح کے واقعات تسلسل کے ساتھ رونما ہورہے ہیں۔ کسی سیاسی وابستگی سے بالاتر ہوکر، یہ انسانیت کا تقاضا ہے کہ لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے آواز اٹھایا جائے۔ لیکن بدقسمتی سے جب ریاست کے زمہ دار خود اس سنجیدہ مسئلے پر توجہ نہ دیں تو لوگوں کا انصاف کے اداروں سے توقع اٹھ جائے گا جس طرح کے بلوچستان میں ایک عمومی تاثر پھیل چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ لاپتہ افراد کے لواحقین سپریم کورٹ تک اس معاملے کو لے گئے، لیکن غیرمعیاری نظامِ انصاف کی وجہ سے ان لاپتہ لوگوں کی بازیابی اب تک ممکن نہ ہو سکی ہے۔ انصاف کے اداروں، باضابطہ قید خانوں اور انتظامیہ کی موجودگی کے باوجود خفیہ اداروں کے اہلکار لوگوں کو اٹھا کر نہ وکیل کرنے کی اجازت دیتے ہیں، نہ ہی لاپتہ افراد کو خاندان سے ملنے کی اجازت دیتے ہیں،خفیہ اداروں کا یہ سلوک کسی المیہ سے کم نہیں ہے۔ لواحقین کے لئے یہ بات باعثِ اذیت ہے کہ توتک ہی سے 2013کو اجتماعی قبریں برآمد ہوئی تھیں، ان قبروں سے برآمد لاشوں میں پہلے روز تین کی شناخت ہوگئی تھی جن کا تعلق آواران سے تھا۔اگلے روز فورسز نے ان اجتماعی قبروں کو اپنے گھیرے میں لیا اور میڈیا سمیت کسی مقامی شخص کو وہاں جانے نہیں دیا۔ ان ناقابلِ شناخت لاشوں کی برآمدگی تمام لاپتہ افراد کے خاندانوں کے لئے ذہنی اذیت کا باعث بن گئی۔ اس طرح کے واقعات صرف ایک خاندان یا علاقے تک محدود نہیں ہیں بلکہ اب تشویشناک حد تک بلوچستان بھر میں تسلسل کے ساتھ ہورہے ہیں۔