مردم شماری کے حوالے سے کوئٹہ میں قومی یکہجتی جرگہ منعقدہوا جس میں صوبہ بھر سے سیاسی جماعتوں اور قبائلی عمائدین نے شرکت کی۔ جرگہ کی صدارت قبائلی رہنماء سابق سینیٹر حاجی لشکری رئیسانی نے کی۔جرگہ کے دوران قبائلی وسیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے کہا کہ افغان مہاجرین کے ہوتے ہوئے منصفانہ مردم شماری ممکن نہیں۔ موجودہ صورتحال میں مردم شماری متنازعہ ر ہے گی۔ شماری وقت کی اہم ضرورت ہے مگر اسے منصفانہ بنانا ہوگا،تارکین وطن کا حق نہیں کہ وہ مزید یہاں رہیں۔ اس وقت لاکھوں شناختی کارڈ بلاک ہیں، ووٹ کی لالچ میں غیر ملکیوں کوشناختی کارڈز جاری کیے گئے. ملک میں الیکشن ہائی جیک ہو سکتے ہیں تو مردم شماری بھی ہو سکتی ہے۔ کسی بھی غیر ملکی کو مردم شماری کاحصہ نہیں بننے دیں گے، مردم شماری حساس معاملہ ہے. شفافیت سے ہی سب کو فائدہ ہو گا، بلوچستان میں رہنے والے ہر شخص کی پہچان ممکن ہے کہ کون مقامی ہے اور کون مہاجر. یہ حقیقت ہے کہ مردم شماری بلوچ قوم کے لیے نقصان کا سبب بنے گی۔ قبائلی ہونے کے ناطے ہمیں ایک دوسرے کی پریشانی کو سمجھنا ہو گا، افغان مہاجرین مہمان ہیں انہیں حصہ دار نہیں بنا سکتے۔مردم شماری کے حوالے سے مسلسل قومی جرگہ منعقد کیاجارہا ہے جہاں مردم شماری کے حوالے سے شدید تحفظات کااظہار کیاجارہا ہے وہیں ان مہاجرین کو سیاست،تجارت سمیت امن پر اثرانداز ہونے کے خدشات پر بھی بات کی جارہی ہے۔ افغانستان میں بدامنی کے بعد مہاجرین کی بڑی تعداد نے پاکستان کا رخ کیا ، یہاں انہیں خوش آمدید کہاگیا مگر حالات بدلتے ہی مہاجرین نے پاکستان میں مستقل رہائش اختیار کرلی اورقومی دستاویزات بنانے شروع کئے ۔اسی طرح تجارتی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ سیاست پر بھی اثر انداز ہوتے گئے نوبت یہاں تک پہنچی کہ غیر قانونی تارکین وطن پاکستان میں دہشت گردی اور بدامنی میں ملوث پائے گئے جس کی مثال حالیہ دہشت گردی بھی ہے جن کے سہولت کار یہی موجود ہیں۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخر کیوں مہاجرین کو باعزت ان کے وطن واپس نہیں بھیجا جارہا۔ اس سے قبل وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ نے اپنے دور حکومت میں کہا تھا کہ ہم مہاجرین کی جلد واپسی چاہتے ہیں جس کیلئے وفاقی حکومت کو خط بھی ارسال کردیا گیا، بعدمیں فیصلہ کیاگیا کہ دسمبر 2015ء کو ان کی واپسی شروع ہوجائے گی مگر اس کے بعد مزید توسیع کی گئی اب حالت یہ ہے کہ نہ صرف بلوچستان بلکہ پورے ملک کے حالات مخدوش ہوکر رہ گئے ہیں اگر اول دن سے ہی ان پر کڑی نظر رکھی جاتی تو نوبت یہاں تک نہ پہنچتی ۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں مسئلہ مردم شماری کی مخالفت نہیں بلکہ مہاجرین کی موجودگی کی وجہ سے شدید تحفظات سامنے آرہے ہیں اس لیے موجودہ مردم شماری کی مخالفت کی جارہی ہے اگر مہاجرین کو مردم شماری سے دور رکھاجائے اور شفاف طریقے سے اس عمل کو آگے بڑھایاجائے تو کسی صورت مخالفت نہیں کی جائے گی مگر 2013ء کے جنرل الیکشن کے دوران مہاجرین کی بڑی تعداد نے الیکشن میں اپنے ووٹ کاسٹ کیے جس پر یہاں کی سیاسی جماعتوں نے شدید احتجاج کیا ۔اسی طرح اب جب مردم شماری کا معاملہ ہے تو اس پر بھی تحفظات کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ جنرل الیکشن کی طرح مردم شماری میں مہاجرین حصہ لیں گے اور ہمیشہ کے لیے مقامی بن جائیں گے جس سے بلوچستان کے حقیقی لوگوں کی حق تلفی ہوگی ۔ اگر دیکھاجائے تو آج ہم جس صورت حال سے دوچار ہیں اس کی وجہ بھی بعض حد تک مہاجرین ہی ہیں کیونکہ مہاجرین کیمپوں سے باہر سیاست،تجارت اور دہشت گردی کررہے ہیں اور حکومتی رٹ کی دھجیاں اُڑارہے ہیں۔ یہ حکومتی رٹ بلوچوں کے حوالے سے کافی حساس ہے اور بلوچستان کے کونے کونے میں خود کو منواتی نظر آتی ہے جس کے باعث بلوچوں کی اکثریت اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئی ہے مگر مہاجرین کے معاملے میں یہ رٹ جگالی کرتی نظر آتی ہے۔ اگر غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف کریک ڈاؤن کرکے انہیں واپس بھیجا جائے تو بلوچستان میں مردم شماری کے حوالے سے پائے جانے والے تحفظات دور ہوجائینگے جس کیلئے وفاقی حکومت کو ہنگامی بنیادوں پر اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ وفاقی حکومت بلوچستان میں مردم شماری سے متعلق تحفظات سے پوری طرح آگاہ ہے کیونکہ بلوچستان کی مخلوط حکومت میں شامل جماعت نیشنل پارٹی کے سربراہ وفاقی وزیر میرحاصل خان بزنجو نے ایک پریس کانفرنس کے دوران مہاجرین کی موجودگی میں مردم شماری پر شدید تحفظات کا اظہار کیا اور اس سلسلے میں وزیراعظم میاں محمد نواز شریف سے ملاقات بھی کی جس پر انہیں یقین دہانی کرائی گئی کہ مردم شماری شفاف طریقے سے ہوگی مگر جنرل الیکشن کی مثال ہمارے سامنے ہے جہاں بلوچوں کی نشستیں پلیٹ میں رکھ کر پشتونوں کو دی گئیں۔ اگر وفاقی حکومت فوری طور پر ان ایکشن ہوجائے اور مہاجرین کو مردم شماری سے دور رکھنے کیلئے تمام وسائل بروئے کار لائے تو یقیناًبلوچستان میں مردم شماری پر کوئی سیاسی جماعت سراپااحتجاج نہیں ہوگی۔ حال ہی میں ہونے والے قومی جرگہ میں تمام سیاسی جماعتیں شامل ہیں ماسوائے ایک دوکے کیونکہ ان جماعتوں کی جانب سے مہاجرین کی مخالفت میں کبھی کوئی واضح بیان سامنے نہیں آیااور نہ ہی اپنی پالیسی واضح کی ہے۔دوسری جانب بلوچستان میں جب حالات خراب ہوئے تو بعض بلوچ علاقوں سے لاکھوں کی تعداد میں بلوچوں نے نقل مکانی کی جن کی آبادکاری کے حوالے سے بھی زور دیاجارہا ہے کیونکہ بلوچستان میں امن وامان کی صورتحال ماضی کی نسبت اب کافی حد تک بہتر ہوچکی ہے۔ اب یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان تمام معاملات پر کیااقدامات اٹھاتی ہے اور تمام سیاسی جماعتوں کے تحفظات کو دور کرنے کے ساتھ ساتھ مہاجرین کی واپسی کیلئے کیا حکمت عملی مرتب کرتی ہے کیونکہ مہاجرین کی موجودگی میں مردم شماری کے حوالے سے تحفظات برقرار ر ہیں جنہیں دور کرنا انتہائی ضروری ہے۔