|

وقتِ اشاعت :   February 22 – 2017

پاکستان میں دہشت گردی کی نئی لہر شروع ہوچکی ہے تین خودکش حملہ آوروں نے چارسدہ کی تنگی ضلعی کچہری میں داخل ہونے کی کوشش کی۔ کچہری کی عمارت پر تعینات سکیورٹی اہلکاروں نے ان حملہ آوروں کو نشانہ بنایا تو ان میں سے دو کی خودکش جیکٹیں پھٹنے سے دھماکے ہوئے جبکہ تیسرا حملہ آور گولی لگنے سے ہلاک ہوا۔ تیسرا دھماکہ حملہ آوروں کی جانب سے پھینکے گئے دستی بم کے پھٹنے سے ہوا۔صوبائی وزیر مشتاق غنی کے مطابق اس واقعے میں سات شہری جاں بحق ہوئے جبکہ 21 زخمی ہیں جن کا علاج جاری ہے۔ڈی آئی جی مردان اعجاز خان کے مطابق ہلاک شدگان میں ایک وکیل جبکہ زخمیوں میں پانچ پولیس اہلکار بھی شامل ہیں۔جائے وقوعہ کے دورے کے بعد صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پولیس کے پاس پیشگی اطلاع تھی کہ کچہری کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے جس کے بعد اس کی سکیورٹی بڑھائی گئی تھی۔دھماکے کے بعد سکیورٹی فورسز نے علاقے کو گھیرے میں لے لیا اور ڈی جی ریسکیو اسد علی خان کے مطابق پشاور اور مردان سے بھی امدادی ٹیمیں جائے وقوعہ کی جانب روانہ کر دی گئیں۔خیبر پختونخوا کے وزیرِ صحت شہرام ترکئی نے چارسدہ، مردان اور پشاور کے ہسپتالوں میں ہنگامی حالت نافذ کر دی ہے۔پاکستان میں گزشتہ کچھ عرصے سے وکلاء کو شدت پسندی کے واقعات میں ہدف بنانے کا رجحان سامنے آیا ہے اور خیبر پختونخوا کے ضلع مردان کی ضلع کچہری کو بھی گزشتہ برس ستمبر میں خودکش حملے کا نشانہ بنایا گیا تھا۔چارسدہ کا یہ حالیہ حملہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب پاکستان میں شدت پسندی کے واقعات میں اچانک اضافہ دیکھا گیا ہے اس سے قبل مارچ 2016 میں چارسدہ کی ہی تحصیل شبقدر کی ضلعی عدالت بھی خودکش حملے کا نشانہ بنی تھی۔گزشتہ دو ہفتے میں ملک کے مختلف علاقوں میں خودکش دھماکوں اور فائرنگ کے واقعات میں 100 سے زیادہ افراد جاں بحق اور سینکڑوں زخمی ہوئے ہیں۔ان واقعات کے بعد جہاں ملک بھر میں شدت پسندوں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں وہیں پاکستان اور افغانستان کی سرحد کو بھی سکیورٹی خدشات کی بنا پر بند کیا جا چکا ہے۔ سرحد کی بندش کی وجہ بھی یہی ہے کہ سرحد پار سے دہشت گرد آکر ملک کے مختلف علاقوں میں حملہ کرتے ہیں جس میں عام شہری،وکلاء ،سیکیورٹی فورسز،قومی تنصیبات،تعلیمی ادارے،تجارتی مراکز شامل ہیں۔ پاکستان نے متعدد بار اس حوالے سے احتجاج بھی کیا مگر سنجیدگی کے ساتھ اس معاملے کو نہیں لیاگیا۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سرحد کی بندش کا فیصلہ بھی اسی لئے کیا گیا کہ پڑوسی ممالک دہشت گردی کے اس مسئلے پر تعاون نہیں کررہے بلکہ الزامات لگارہے ہیں۔ جب پاکستان نے افغانستان کو دہشت گردوں کی فہرست دی تو ان کی جانب سے بھی ایک ایسی ہی فہرست تھما دی گئی۔ مگر سوال یہ اٹھتا ہے کہ افغانستان نے کس حد تک دہشت گردوں کے خلاف منظم کارروائی کی ہے جو اب تک پاکستان نے کی ہے اوروہ سب کے سامنے عیاں ہے۔ تک دہشت گردوں کے خلاف کریک ڈاؤن جاری ہے اور دہشت گردوں میں کوئی تمیز نہیں برتی جارہی کیونکہ اس وقت خطے کو امن کی ضرورت ہے مگر دہشت گرد خطے میں عدم توازن پیدا کرنا چاہتے ہیں تاکہ حالات مزید گھمبیر ہوجائیں ۔اگر حالات اسی طرح رہے تو یہ کسی کے بھی مفاد میں نہیں ہے اس وقت پڑوسی ممالک کی جانب سے جو رویہ اپنایاجارہا ہے وہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ وہ دہشت گردی کی جنگ میں سنجیدہ نہیں اور نہ ہی وہ اس اہم نوعیت کے مسئلے پر کوئی مؤثر کردار ادا کرنے کیلئے تیار ہیں انہی رویوں کے باعث قربت کی بجائے دوریاں پیدا ہورہی ہیں اگر پڑوسی ممالک دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سنجیدہ ہیں اور خطے میں امن چاہتے ہیں تو ان کی جانب سے بھی واضح پیغام دہشت گردوں کیلئے آنا چاہیے مگر اب تک کی صورتحال کو دیکھا جائے تو ایسا کچھ نہیں کیاجارہا جس سے پڑوسی ممالک کے رویہ میں لچک کی بات کی جاسکے۔ پاکستان میں دہشت گرد سرحد پار سے آتے ہیں اور تخریب کاری کرتے ہیں جن کے سہولت کار بھی یہاں موجود ہیں جن کے خلاف بھی کریک ڈاؤن شروع کیا جاچکا ہے، اس حوالے سے ثبوت بھی سامنے آرہے ہیں کہ کہاں سے یہ دہشت گرد اور سہولت کار آکر تخریب کاری کا منصوبہ بناتے ہیں اورپھر کاروائی کرتے ہیں، اس لئے ضروری ہے کہ دہشت گردی کی اس نئی لہر کو روکنے کیلئے باہمی تعلقات کو مضبوط بنایاجائے ۔ اب یہ پڑوسی ممالک پر منحصر ہے کہ وہ اس میں کس حد تک تعاون کر تے ہیں اور خطے میں امن کے قیام کیلئے اپنا کردار ادا کر تے ہیں۔پاکستان دہشت گردوں کے خلاف بھرپور کارروائی کررہا ہے مگر سوال یہی پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان تنہا اس جنگ کو لڑے گا کیا دیگر ممالک اس حوالے سے اپنا کردار ادا نہیں کرینگے ۔جو ثبوت پیش کیے جارہے ہیں ان پر اسی طرح چھپ کا روزہ رکھا جائے گا اور ان ممالک پر کوئی دباؤ بڑھایانہیں جائے گا کہ وہ دہشت گردوں کی پشت پناہی کررہے ہیں، دہشت گردی پاکستان میں ہوتی ہے اور الزامات بھی پاکستان پر لگائے جاتے ہیں اس اہم مسئلے پر اقوام متحدہ کو بھرپور طریقے سے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا کیونکہ جو دراندازی ہورہی ہے وہ دنیا کو ایک نئی جنگ میں جھونک دے گی ۔ موجودہ حالات امن کے متقاضی ہیں تاکہ دہشت گردی کو ختم کرکے خطے کو ترقی کی طرف لے جایا جاسکے ۔ وفاقی حکومت بھی حالیہ دہشت گردی کی لہر کو مد نظر رکھتے ہوئے آل پارٹیز کانفرنس طلب کرکے ازسرنو تمام معاملات کا جائزہ لے تاکہ دہشت گردی کی اس نئی لہر کو روکا جاسکے ۔