کوئٹہ:پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے چیئرمین محمود خان اچکزئی نے کہا ہے کہ پاکستان اور افغانستان ایک دوسرے خودمختیاری تسلیم کریں اور دو بھائیوں کی طرح ایک دوسرے کیساتھ تعاون درکار ہوگا وہ ریاستیں جنہوں نے افغانستان کی بربادی میں حصہ لیا تھا اب افغانستان کے استحکام کی ضمانت دیں جب یہ ضمانت ملے تب پاکستان اور افغانستان دونوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ایک دوسرے کیساتھ تعاون کریں اور دونوں نے ایک دوسرے کے دشمنوں کو پناہ نہیں دینا ہوگی پاکستان اور افغانستان مستقبل میں ترقی و خوشحالی کیلئے اپناکردار ادا کرنا ہوگا موجودہ حالات میں تصادم سے گریز کرنا چاہئے ان خیالات کا اظہار انہوں نے ایک غیرملکی خبررساں ادارے سے با ت چیت کرتے ہوئے کیا انہوں نے کہا کہ افغان مہا جرین یہاں نہ ہماری مرضی سے آئے ہیں اور نہ ہی اپنی مرضی سے بلکہ اس کے پیچھے ایک تاریخ ہے اور وہ یہ کہ افغان بھائی اقوام متحدہ کی ایک قرارداد کے ذریعے یہاں آئے ہیں جب سویت فوجیں افغانستان میں داخل ہوئیں تو لو گوں نے کہا کہ ایک آزاد ریاست پر چونکہ حملہ ہوا ہے تو یہاں کے لوگوں کو پناہ دی جائے یہ لوگ غیر قانونی طور پر بالکل یہاں نہیںآئے بلکہ یہ اس وقت کے حکومت پاکستان کی مرضی اور قرارداد پر عمل درآمد کے نتیجے میں آئے ہیں اسی طرح دنیا جہاں میں دوسرے ممالک سے بھی مہا جرین دنیا کے ترقی یا فتہ ممالک میں پناہ لے چکے ہیں دبئی اور آدھی دنیا میں دوسرے ممالک کے لوگ موجود ہیں افغانوں کو اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت یہاں رہنے کا حق دیا جائے دنیا میں یہ شوشہ چھوڑا جا رہا ہے اور ایک سازش کے تحت پشتونوں کو دہشت گرد اور فرقہ پرست قرار دیا جا رہاہے لیکن ہماری تاریخ ایسی ہے کہ ہم پشتون دنیا جہاں کی تاریخ میں نہ کبھی دہشت گرد اور نہ ہی فرقہ پرست رہے ہیں آمو سے لے کر اباسین تک پشتون نہ دہشت گر د رہا ہے ایسے حالات میں تمام باشعور پشتون اور مثبت سوچ رکھنے والوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ دنیا کو بتادیں کہ نہ ہم پہلے دہشت گرد تھے اور نہ اب دہشت گردی پر یقین رکھتے ہیں دہشت گردی کے واقعات میں سب سے زیادہ نقصان پشتونوں نے اٹھایاپھر بھی ہمیں ان القابات سے نوازا جارہا ہے جو کسی بھی صورت درست نہیں ہم اپیل کر تے ہیں کہ پشتونوں کو دہشت گرد پکارنے سے اجتناب کریں البتہ ہم نے بحیثیت قوم تاریخ میں اپنی مٹی اور اپنی سر زمین ، اپنی مادر وطن اور اپنی خود مختیاری پر خاموش نہیں رہے اور ہم اس پرنالاں ہوئے ہیں پاکستان اور افغانستان تاریخی طورپر ہمسائے ہیں پاکستان اب تک ستر سالہ ہے لیکن افغان اسٹیٹ پوری دنیا اور پوری اسلامی دنیا میں افغان واحد قوم تھی جنہوں نے خارجی دنیا کے قبضوں کے دوران اپنی آزادی اور خود مختاری مستحکم رکھی اور وہ افغانستان جنہوں نے اپنی آذادی خود مختاری برقراررکھی تمام کے تمام مذاہب کیلئے دار لا امن رہا ہے یہاں پر انگریزوں سے ناراض لوگ جاتے اور افغانستان میں پناہ لیتے تھے پھر جب پاکستان بنا تو ہونا چاہئے تھا کہ پاکستان اس پرامن افغانستان کا بہترین اسٹرٹیجک پارٹنر بنتا محمود خان اچکزئی نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ہم نے اپنی بساط کے مطابق اپنے تمام دوستوں کو بہت پہلے سے یہ کہا ہے اپنے حکومتی شراکت داروں کو بار بار یہ کہا ہے کہ اگر یہ پالیسی ایسی رہے گی تو یہ تمام خطہ جنگ کے شعلوں میں جل جائے گی لہٰذا پالیسیوں پر نظرثانی کر کے حالات کو مستحکم کریں افغانستان کے جنگ میں پوری دنیا ملوث رہی ہے ایک طرف امریکہ کی رہبری میں اور دوسری طرف سے سویت یونین کے دوستوں کی جانب سے۔اس وقت تو پوری دنیا اور یورپین ممالک یہ بات کر تے تھے کہ افغانستان کے استحکام کو خطرہ ہے جب سوویت یونین کی فوجیں نکل پڑیں تو اس کے بعد جنگ کو کیوں جاری رکھا گیا؟ اب ہو نا یہ چا ہئے کہ وہ ریاستیں افغانستان کے استحکام کی ضمانت دے دیں اور جب یہ ضمانت ملے تب بالکل پاکستان اور افغانستان دونوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ یہ وعدہ کریں کہ ہم نے ایک دوسرے کے دشمنوں کو پناہ نہیں دینی ہو گی البتہ آنا جانا ہو تا رہے کوئی آدمی یہاں خفا ہو کر قندھار چلا جائے یا وہاں سے کوئی خفا ہو کر کوئٹہ آئے تو اس حالات میں ان دونوں آزاد مملکتوں نے بین القوامی گارنٹی دینی ہو گی کہ ایک دوسرے کے ناراض لو گوں کو ٹریننگ ، اسلحہ، مسلح قواء کے ٹھکانے ٹریننگوں کے کیمپس اور دیگر بربادیوں کی اجازت نہیں ہوگی۔