|

وقتِ اشاعت :   February 28 – 2017

اسلام آباد: پارلیمانی جماعتوں نے فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع پر اتفاق رائے کرلیا ، مدت دو سال ہوگی ، نیشنل ایکشن پلان کی نگرانی کے لیے کمیٹی بھی بنائی جائے گی۔۔ اجلاس میں پیپلز پارٹی نے شرکت نہیں کی ۔ سپیکر سردار ایاز صادق کی زیر صدارت اجلاس میں اسحاق ڈار ، شاہ محمود قریشی ، سراج الحق ، شیخ رشید ، غلام احمد بلور ، آفتاب شیر پائو ، شیخ صلاح الدین سمیت دیگر رہنما شریک ہوئے ۔ اجلاس میں فوجی عدالتوں کی مدت دو سال کرنے اور نیشنل ایکشن پلان کی نگرانی کے لیے کمیٹی قائم کرنے پر اتفاق کیا گیا ۔ اجلاس کے بعد مشترکہ نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بتایا کہ پارلیمانی رہنمائوں کے آٹھویں اجلاس میں سب کا متفقہ فیصلہ تھا کہ فوجی عدالتوں کے قیام کا معاملہ حل ہونا چاہئے ۔ اجلاس میں پیپلز پارٹی کے علاوہ تمام جماعتیں موجود تھیں ۔ آئینی ترمیم کی منظوری کیلئے سینٹ اور قومی اسمبلی کا اجلاس تین اور چھ مارچ کو طلب کرنے کی تجویز سامنے آئی ہیں ۔ اسی روز دونوں اجلاس بلائے جا رہے ہیں ۔ امید ہے کہ پیپلز پارٹی کی کل جماعتی کانفرنس میں بھی فوجی عدالتوں میں توسیع کے معاملے پر اتفاق رائے ہو جائے گا ۔ اسحاق ڈار نے کہا کہ سیاسی جماعتیں کسی نکتے پر مزید کوئی تبدیلی کرنے پر راضی ہوئیں تو قومی اسمبلی اجلاس میں تھوڑی بہت تبدیلی کرکے حتمی مسودہ طے کر لیں گے ۔ انہوں نے کہا کہ اجلاس میں کچھ ساتھیوں نے پنجاب میں پختونوں کے حوالے سے جاری ہونے والے خطوط کی طرف توجہ مبذول کرائی ہے ۔ انہیں یقین دلایا ہے کہ ایسے متنازعہ خطوط جاری کرنے والوں کیخلاف کارروائی ہوگی ۔ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتوں نے فیصلہ کیا کہ دہشتگردی پر کوئی سیاست نہیں ہوگی ۔ تمام سیاسی جماعتیں متفق ہوئیں کہ پاکستان کے حالات غیر معمولی ہیں ۔ سوال یہ تھا کہ جو پچھلی دفعہ کی قباحتیں ہیں وہ کیسے دور کی جائیں ۔ اس کے لئے اب پارلیمنٹ کی ایک نگران کمیٹی ہوگی جو تمام معاملات دیکھے گی ۔ فوجی عدالتوں کی مدت بھی تین کے بجائے دو سال کرنے پر اتفاق ہوا ہے اور توسیع کا اطلاق سات جنوری دو ہزار سترہ سے ہی ہوگا تاکہ درمیانی مدت کے اقدامات کو قانونی تحفظ حاصل ہوگا ۔ دو سال بعد فوجی عدالتوں میں زیر التواء مقدمات انسداد دہشت گردی عدالتوں کو منتقل ہو جائیں گے ۔ جماعت اسلامی کی صاحبزادہ طارق اللہ نے کہا کہ دینی جماعتوں کا موقف تھا کہ دہشت گردی کو کسی بھی مذہب سے نہ جوڑا جائے اور اس بات کو مسودے سے نکالا جائے ۔ یہ مطالبہ تسلیم کیا گیا ہے ۔ ایم کیو ایم کے فاروق ستار نے کہا کہ ایم کیو ایم نے دو سال قبل بھی تحفظات کے باوجود فوجی عدالتوں کی حمایت کی تھی مگر افسوس کی بات ہے کہ وفاقی و صوبائی حکومتیں دہشت گردی کے خاتمے میں سنجیده نہیں رہیں اسی وجہ سے نیشنل ایکشن پلان پر بھی چند نکات کے علاوه عمل نہیں ہوا ۔ سیاسی جماعتیں کب تک حکومت کی خامیوں پر پرده ڈالتی رہیں گی ۔ انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم اب بھی وزیر اعظم کے سامنے تحفظات رکھنا چاہتی ہے ۔ یقین دہانی چاہتے ہیں کہ دوسال تک حکومت کی کارکردگی کیا رہے گی ۔ ایسے حالات میں کیسے عوام توقع کرسکتی ہیں که حکومت دہشت گردی ختم کر رہی ہے ۔ فاروق ستار نے کہا کہ یہ تاثر اب فوج میں بھی پایا جا رہا ہے کہ صرف فوج ہی ضرب عضب اور ردالفساد میں تنہا کھڑی ہے ۔ آپریشن میں صرف فوج کو جھونک دیا جاتا ہے ۔ حکومت خود کہاں ہے ۔