|

وقتِ اشاعت :   March 8 – 2017

حال ہی میں ایک بڑی خبر اخبارات کی زینت بنی کہ وزیراعظم صاحب نے 55کے قریب شہروں اور قصبوں کو سوئی گیس فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ تمام حلقے پاکستان کے اہم ترین اور طاقتور ترین افراد کے ہیں ۔ ان تمام افراد کی پہنچ وزیراعظم اور ان کے سیکرٹریٹ تک ہونا عام سی بات ہے وہ بلا کسی جھجک کے وزیراعظم سیکرٹریٹ بلکہ وزیراعظم تک جا سکتے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ اتنے قریبی تعلقات کی وجہ سے اپنے حلقے کے کسی شہر کو بجلی ‘ گیس ‘ سڑکیں اور دوسری سہولیات فراہم کرنا کوئی مسئلہ نہیں ہے ۔ گزشتہ سال وزیراعظم نے اپنے صوابدیدی فنڈ سے تیس ارب روپوں سے بعض علاقوں اور حلقوں کو سوئی گیس فراہم کیے ۔ ان میں سے کچھ رہ گئے جنہوں نے وزیراعظم سیکرٹریٹ میں احتجاج کیا اور ہنگامہ آرائی تک کی کہ ان کے بعض شہروں کے لئے وزیراعظم نے فنڈ زنہیں دئیے ۔ اس سال تقریباً55ایسے حلقے ہیں جہاں پر وزیراعظم کے صوابدیدی فنڈ اور حکم سے سوئی گیس فراہم کی جائے گی ان میں میر ظفر اللہ جمالی سابق وزیراعظم پاکستان کا گاؤں بھی شامل ہے ۔ عنایت کا ریز جو محمود خان اچکزئی کا آبائی گاؤں ہے وزیراعظم نے اس کو بھی سوئی گیس پہنچانے کا نہ صرف حکم دیا بلکہ اس کے کام کا افتتاح اپنے مبارک ہاتھوں سے بھی کیا کیونکہ محمود خان اچکزئی اور اس کی پارٹی وزیراعظم کا سیاسی اتحادی ہے لہذا وزیراعظم پر یہ اخلاقی ذمہ داری ہے کہ محمود خان اچکزئی کے مطالبے پر نہ صرف غو رکرے بلکہ اس کو بلا کسی رکاوٹ کے قبول کرے اور اس پر فوری عمل درآمد کرائے چنانچہ عنایت کاریز جو افغان سرحد کے قریب ایک قصبہ ہے اس کوسوئی گیس فراہم کی جارہی ہے ۔ دوسری جانب ہمارے وزیراعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری نے اس دورے کے دوران وزیراعظم سے ملاقات کی ‘ ملاقات میں صوبائی وزیر خزانہ سردار اسلم بزنجو بھی ان کے ہمراہ تھے ۔ انہوں نے خضدار شہر کے لئے ایک ایل پی جی پلانٹ مانگا اور وزیراعظم نے اس کی منظوری دی ۔ خضدار نہ صرف ایک تاریخی شہر ہے بلکہ یہ پاکستان کا ایک مرکزی شہر اور بلوچستان کا دل ہے اس کی خطے میں بہت زیادہ اہمیت ہے آنے والے سالوں میں یہ بہت بڑا معاشی اور صنعتی مرکز بن کر ابھرے گا اس کا علاقہ اتنا وسیع اور عریض ہے جس میں لاکھوں افراد کو روزگار ملے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ یہاں معدنی دولت کی فراوانی ہے، اس کی زراعت بہت وسیع ہے اس لیے بلوچستان کے بڑے رہنماؤں نے یہاں پر پہلا ٹیکنیکل کالج جس کو آج کل یونی ورسٹی کا درجہ دیا گیا ہے ،قائم کیا۔ دوسری جانب حکومت اور خصوصاً سوئی گیس کمپنی نے یہ تہیہ کر لیا ہے کہ خضدار اور اس کے گردونواح کو کبھی سوئی گیس فراہم نہیں کی جائے گی ۔ فوجی افسروں کے دباؤ کے بعد جنرل ضیاء الحق نے 1980ء کی دھائی میں کوئٹہ کی چھاؤنی اور شہر کو سوئی گیس فراہم کرنے کے احکامات دئیے ۔ اس کے بعد حکومت نے منافقت کا مظاہرہ کیا ایک چھوٹی پائپ لائن کوئٹہ سے پہلے مستونگ اور پشین اور بعد میں اس کو توسیع دے کر قلات اور زیارت کو گیس فراہم کی گئی ۔ گیس پائپ لائن جان بوجھ کر چھوٹی ڈالی گئی تاکہ اس پر کم سے کم اخراجات آئیں اور پورے وسطی بلوچستان کو خضدار تک گیس فراہم نہ ہو ۔ گزشتہ دو دھائیوں میں سوئی گیس پنجاب کے ہر گاؤں ہر شہر بلکہ بھارتی پنجاب کے سرحدی گاؤں تک پہنچایا گیا لیکن وسطیٰ اور مغربی بلوچستان کو اس سہولت سے محروم رکھا گیا ۔ وجہ نہیں معلوم ‘ سوائے یہ کہ یہ ایک پسماندہ صوبہ ہے اور اس کی وفاق پاکستان میں کوئی نمائندگی نہیں ہے ۔ لہذا اس کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے نظر انداز کیا جائے تو زیادہ بہتر ہے ۔ بلوچستان کے 29اضلاع ابھی تک سوئی گیس کی سہولت سے محروم ہیں اور حکومت کا بھی کوئی ارادہ نظر نہیں آتا کہ عوام الناس کو سوئی گیس فراہم کی جائے خصوصاً خضدار جو بلوچستان کا دوسرا بڑا شہر ہے۔ ہم تواتر سے اپنے کالموں اور اداریوں میں مطالبہ کرتے رہے ہیں کہ بلوچستان کے تمام شہروں خصوصاً خضدار، تربت اور گوادر کو بھی سوئی گیس فراہم کی جائے۔ ایل پی جی پلانٹ اس کا نعم البدل نہیں ہے ۔ ایل پی جی پلانٹ سے صنعتی اور معدنی ترقی ممکن نہیں ہے ۔ ایک سال وزیراعظم صاحب اپنا صوابدیدی فنڈ بلوچستان پر بھی خرچ کریں پنجاب کے معاملے میں وہ سپریم کورٹ کے احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سیاسی فیصلے کررہے ہیں اور پنجاب میں صوابدیدی فنڈ کا استعمال ہورہا ہے جبکہ بلوچستان مکمل نظر انداز ہے اس کے لیے کوئی فنڈز نہیں ۔