بلوچستان کو دریائے سندھ کے پانی سے اس کا حصہ صرف دو بڑی نہروں پٹ فیڈر اور کیرتھر کینال سے ملتا ہے ۔ اس کابرائے نام کنٹرول وفاق کے پاس ہے مگر حقیقتاً سندھ کا محکمہ آبپاشی اس کو کنٹرول کرتا ہے اور اس کے افسران اپنی مرضی کے مطابق بلوچستان کو پانی فراہم کرتے ہیں ۔ نام کے طورپر ارسا بھی موجو دہے جس کا کام صوبوں کے درمیان دریائے سندھ کے پانی کو منصفانہ تقسیم کرنا ہے ۔ کیرتھر کینال سے پہلے سندھ کے بعض علاقوں کو پانی ملتا تھا بعد میں سندھ کے حصے کو الگ کردیا گیا اور اس کے لئے ایک الگ نہر مگسی کینال تعمیر کی گئی ۔ گڑنگ کے مقام پر سندھ کے پانی کو الگ کردیا گیا اس میں نئے نہر کی سطح اتنی نیچی رکھی گئی کہ کیرتھر کینال کا پانی بمشکل کینال کے آخری سرے اور حصے تک پہنچ پاتا ہے اس کی ڈیزائن اس طرح کی گئی کہ کیر تھر کینال کو کم سے کم پانی ملے ۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ بلوچستان کے حکام نے کبھی بھی اپنے حقوق کا تحفظ نہیں کیا بلکہ اس میں کسی دل چسپی کا اظہار نہیں کیا کہ بلوچستان کے فصلوں وقت کو سندھ کے نہری نظام سے پانی ملتا رہے ۔ اسی طرح پٹ فیڈر کو قوانین کے مطابق اس کے حصے کا پانی فراہم نہیں کیا جارہا ، پٹ فیڈر کو کم سے کم سات ہزار کیوسک پانی ملنا چائیے ۔ اس کی کم سے کم حد 2500کیوسک سردیوں کیلئے رکھی گئی ہے مگر دونوں صورتوں میں پٹ فیڈر کو کم پانی فراہم کیا جارہا ہے ۔ ایک اطلاع کے مطابق تقریباً دو لاکھ ایکڑ زرعی زمین پٹ فیڈر کمانڈ کے علاقے میں بنجر رہے گی اس کو پانی نہیں ملے گااس کا مطلب یہ ہوا کہ بلوچستان اپنی ضرورت کے مطابق غلہ پیدا نہیں کر سکے گا اور اس سال پھر وہ سندھ اور پنجاب کا محتاج رہے گا کہ یہ دونوں صوبے بلوچستان کی غذائی ضروریات پورا کریں جو ایک افسوسناک بات ہے یہ صرف اس لیے ہورہا ہے کہ بلوچستان کو اس کے حق کے نہری پانی سے محروم رکھا جارہا ہے اس کا ذمہ دار سندھ ہے کیونکہ سندھ نہری پانی کو کنٹرول کرتا ہے اور افسران اپنی مرضی سے بلوچستان کو پانی کی فراہمی میں کمی کرتے رہتے ہیں ۔وفاق کو تو پہلے ہی بلوچستان کے کسی بھی معاملے میں دلچسپی نہیں رہی ان کی بلا سے کہ بلوچستان کو نہری پانی میں اس کا حق ملتا ہے یا نہیں ۔ دوسرے الفاظ میں وفاق سندھ اور بلوچستان تفرقہ میں دلچسپی رکھتا ہے ورنہ ارسا کے فیصلے آسانی کے ساتھ نافذ کیے جا سکتے ہیں ایک کم درجے کے سندھی افسر کی یہ مجال نہیں ہے کہ وہ بلوچستان کو نہری پانی کے حق سے محروم کردے۔ اس مسئلے پرصوبائی اسمبلی میں زور دار بحث ہوئی اور اسمبلی نے قرار داد بھی پاس کی جس میں اس بات کا اعادہ کیا گیا کہ وفاقی اور سندھ حکومت کے ساتھ اس اہم ترین مسئلے کو اٹھایا جائے گا اور اس کا ایک مستقل حل تلاش کیاجائے گا۔ یہ تشویش کا مقام ہے کہ بلوچستان کی دو لاکھ ایکڑ زرخیز زمین بنجر رہے گی کیونکہ اس کوو قت پر پانی نہیں مل رہا ۔ سندھ نے بلوچستان کے حقوق پر ڈاکہ ڈال کر نہری پانی روک دیا ہے جس کے خلاف احتجاج بلوچستان کا حق بنتا ہے اوریہ مرکزی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس مسئلے کا حل نکالے اور بلوچستان کے زمینداروں کو یہ یقین دلائے کہ آئندہ سندھ یک طرفہ طورپر نہری پانی پر کنٹرول نہیں کرے گا۔ ارسا اس بات کی یقین دہانی کرائے کہ اس کا نمائندہ پانی کی تقسیم کے مقام پر موجود ہوگا اور انصاف کے تمام تقاضے پورے کیے جائیں گے۔ بلوچستان اسمبلی میں یہ بھی کہا گیا کہ بلوچستان نے صرف سندھ کے مفاد میں کالا باغ کی مخالفت کی تھی اور آج بھی کررہا ہے اور سندھ اس کے بدلے بلوچستان کے حصے کا نہری پانی خود استعمال کررہا ہے۔ پانی کی کمی کی صورت میں اس کو برابر تقسیم کیاجائے جتنا حصہ بلوچستان کو کم ملے گا اتنا ہی سندھ کو کم ملے تاکہ انصاف کے تقاضے پورے ہوں۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ سندھ زیادہ پانی استعمال کرے اور ساری کمی کا بوجھ بلوچستان پر ڈالا جائے۔ ہم یہ قوی امید کرتے ہیں کہ وفاق اس معاملے میں مداخلت کرے گا اور اس بات کو یقینی بنائے گا کہ بلوچستان کو اس کے حصے کا پورا پانی بروقت ملے تاکہ بلوچستان کو غذائی قلت کا سامنا نہ کرنا پڑے ۔یہ وفاق کی ذمہ داری ہے اور امید ہے کہ وفاق اپنی ذمہ داری پوری کرے گا۔