|

وقتِ اشاعت :   March 9 – 2017

واشنگٹن: امریکی انٹیلی جنس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کا کہنا ہے کہ سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی (سی آئی اے) کے راز افشاں ہونے والے معاملے کی فوجداری تحقیقات ہوں گی۔ سی آئی اے کے سامنے آنے والے رازوں سے متعلق خیال کیا جا رہا ہے کہ انہیں افشا کرنے میں سی آئی اے کے لیے کام کرنے والے ’کنٹریکٹرز‘ ملوث ہوسکتے ہیں۔ واضح رہے کہ وکی لیکس نے حال ہی میں جاری کیے گئے دستاویزات میں کہا تھا کہ سی آئی اے کے پاس ہر طرح کی سیکیورٹی کو توڑنے کے آلات موجود ہیں۔ دستاویزات میں کہا گیا تھا کہ سی آئی اے کے پاس ایپل، آئی فون، گوگل، اینڈرائیڈ موبائل فونز، ٹیکسٹ اور آڈیو پیغامات سمیت دیگر ڈیوائسز کو ہیک کرنے اور ان کی سیکیورٹی توڑنے کے آلات اور سسٹمز موجود ہیں۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے’رائٹرز‘ کے مطابق امریکی انٹیلی جنس کے 2 عہدیداروں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ انٹیلی جنس ادارے گزشتہ برس کے آخر سے ہی رازوں کو افشا کرنے سے متعلق خلاف ورزیوں سے آگاہ تھے، جنہیں بعد ازاں وکی لیکس نے رواں ہفتے 7 مارچ کو اپنی ویب سائٹ پر جاری کیا۔ عہدیداروں نے تصدیق کی کہ وکی لیکس کی جانب سی آئی اے کی ہیکنگ سے متعلق افشا کیے گئے تکنیکی ٹولز کو ایجنسی نے 2013 سے 2016 کے درمیان استعمال کیا۔ سی آئی اے کی تحقیقات سے منسلک رہنے والے ایک اہلکار نے بتایا کہ سی آئی اے کی ’کنٹریکٹر‘ کمپنیاں اس بات کی تحقیقات کر رہی ہیں کہ ان کے کن ملازمین نے وکی لیکس کو شائع کیے گئے رازوں تک رسائی دی، کمپنیز اپنے ملازمین کی ای میل اور کمپیوٹر لاگن سمیت ان روابط کو دیکھ رہی ہیں جن سے انہیں ذمہ دار قرار دیا جا سکے۔ ادھر وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سی آئی اے میں ہونے والی خلاف ورزیوں اور وکی لیکس کو حاصل ہونے والے رازوں پر انتہائی تشویش کا اظہار کیا۔ وکی لیکس کو راز کیسے پتہ چلے؟ یاد رہے کہ 7 مارچ کو وکی لیکس نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ انہوں نے سی آئی اے کے ان پرانے ہیکنگ طریقوں تک رسائی حاصل کرکے شائع کیا جن پر سی آئی اے اپنا کنٹرول کھورہی ہے اور وہ خود کسی مقصد کے لیے سابق امریکی حکومت کے ہیکرز اور کنٹریکٹرز کے درمیان ان ہیکنگ طریقوں کو سرکولیٹ کر رہی ہے۔ وکی لیکس کے دستاویزات کے مطابق سی آئی اے نے ایک ہزار سے زائد میل وئیر سسٹم، وائرس، ٹروجنز اور دیگر سافٹ وئیر بنا رکھے ہیں تاکہ الیکٹرونک مصنوعات کے سسٹم میں مداخلت اور کنٹرول سنبھالا جاسکے۔ ان ہیکنگ ٹولز سے مبینہ طور پر آئی فونز اور اینڈرائیڈ فونز کو ہدف بنایا جاتا ہے جبکہ مائیکروسافٹ وئیر اور سام سنگ کے اسمارٹ ٹیلیویژنز کو بھی نشانہ بنایا جاتا ہے۔ وکی لیکس نے دعویٰ کیا تھا کہ کہ امریکی خفیہ ادارہ مختلف کمپنیوں کی ڈیوائسز کے ہارڈ وئیر اور سافٹ وئیر سسٹم میں موجود خامیوں کا فائدہ اٹھاتا ہے۔ دوسری جانب سی آئی اے نے وکی لیکس کے بیان اور افشا ہونے والے رازوں پر کوئی بھی تبصرہ کرنے سے انکار کردیا۔ تاہم سی آئی اے نے اپنے جاری میں کہا ہے کہ‘ اس کا کام امریکا کو دہشت گردوں سے محفوظ بنانے، ملک و قوم کی حفاظت اور امریکا کو دوسرے ممالک کے حملوں سے محفوظ بنانے کے لیے بیرون ممالک سے انٹیلی جنس معلومات کا حصول ہے۔ جاری بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ امریکا بھر میں نگرانی کے لیے قانون نہیں روکتا۔