|

وقتِ اشاعت :   March 10 – 2017

تقریباً گزشتہ ایک صدی خصوصاً قیام پاکستان کے بعد سے بلوچستان میں ریلوے نظام کو مکمل نظر انداز کیا گیا ہے۔ گزشتہ ستر سالوں میں چند ایک مسافر ٹرینیں چلائی گئیں جن سے لوگوں کو سفری سہولیات ملیں۔ لیکن افسوس کی بات یہ بھی ہے کہ پاکستان ریلوے نے اپنے نظام کو وسعت دینے کی بجائے یہاں چلنے والی بہت سے ٹرینیں بند کردی ہیں جتنی ٹرینیں چلائی جارہی ہیں ان کے انجن اور ڈبے پرانے ہیں بلوچستان کو نئے انجن اور ڈبوں سے محروم رکھا گیا ۔ حال ہی میں راقم نے کوئٹہ سے لاہور اور پھر کراچی سے کوئٹہ کا سفر ٹرین کے ذریعے کیا جس سے اندازہ ہوا کہ مسافرکتنی بڑی اذیت کا شکار ہیں ۔ اے سی کے ڈبہ کی حالت انتہائی خراب اور واش روم تقریباً نا قابل استعمال ہیں۔ اتنی طویل سفر کے دوران مسافر اذیت میں رہتے ہیں ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان ریلویز بلوچستان کے مسافروں کو بھی انسان سمجھے وہ جانور نہیں ہیں لہذا ان کو بھی وہی سہولیات فراہم کی جائیں جو مین لائن کے ٹرین مسافروں کو فراہم کی جارہی ہیں۔ اے سی سے لے کر نچلے درجے کے مسافروں کو بھی اچھی اور بہترین سہولیات فراہم کی جائیں موجودہ سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں ۔دوران سفر یہ انکشاف بھی ہوا کہ پاکستان ریلویز سیکورٹی کے تمام اخراجات مسافروں سے ٹکٹ کے ذریعے وصول کرتی ہے جو ایک افسوسناک بات ہے سیکورٹی اداروں کا بجٹ موجود ہے وہ اپنے ہی فنڈ سے ملک بھر میں سیکورٹی فراہم کریں ۔ بلوچستان کے ٹرینوں کی سیکورٹی کے اخراجات کم سے کم مسافروں سے وصول نہ کریں ’ ملک کے دفاعی بجٹ کو استعمال میں لایا جائے یا پاکستان ریلویز کے منافع سے اخراجات وصول کی جائیں مسافروں کے جیب پر بوجھ نہ ڈالاجائے کیونکہ بلوچستان کے عوام پاکستان کے سرکاری ملازمین کے مقابلے میں غریب ترہیں اس لیے ان پر زیادہ مالی بوجھ نہ ڈالا جائے۔ اس طرح بعض علاقوں میں پاکستان ریلویز کے اثاثے ہیں جو لا وارث پڑے ہیں ان میں ریلوے اسٹیشن شامل ہیں ۔ خصوصاً دوردراز کے علاقوں میں ان اثاثوں کی حالت خستہ ہے ان کی دیکھ بھال نہیں ہورہی ۔ دوسرے الفاظ میں پاکستان ریلویز بلوچستان میں اپنے فنڈز خرچ کرنے کا ارادہ نہیں رکھتی بلکہ سارے اخراجات پنجاب اور خاص کر لاہور پر کیے جارہے ہیں ۔ ایک اخباری اطلاع کے مطابق سوالات کا جواب دیتے ہوئے پارلیمان کو بتایا گیا کہ 97فیصد بجٹ ریلوے کی تعمیر نو کے لئے صرف پنجاب اورلاہور کے قرب وجوارمیں خرچ کیا گیا ۔ معلوم ہوتا ہے کہ وزیر ریلوے اور حکومت پنجاب اپنے سیاسی حلقوں پرساری رقم خرچ کرر ہے ہیں اور پورے ملک کو نظر انداز کیا جارہا ہے ان کی ساری توجہ لاہور کے قرب وجوار میں ریلوے کی تعمیر نو یا تزئین پر ہے ۔ کوئٹہ کے حوالے سے بات کی جائے تو اس شہر پر آبادی کا دباؤ بڑھ گیا ہے خصوصاً افغان غیر قانونی تارکین وطن کے مسلسل یلغار کے بعد ٹریفک کا نظام تقریباً معطل ہو کر رہ گیاہے ۔ ٹریفک جام عام سی بات ہے ۔رش کے دوران ٹریفک جام زیادہ سنگین اور شدید ہوجاتا ہے اس لیے ریلوے کو چائیے کہ سریاب اورکچلاک کے درمیان فوری طورپر شٹل ٹرین چلائے اس کے لئے ٹریک ‘ عملہ ‘ نظام سگنل اور تمامسہولیات موجود ہیں لہذا دن میں یہ شٹل ٹرین کئی بار چلائی جائے تاکہ لوگوں کو سستی آمد و رفت کی سہولت کے ساتھ ساتھ وقت کی بچت اور ٹریفک جام سے چھٹکارا بھی ملے ۔ لیکن پاکستان ریلویز کواس بات میں دلچسپی نہیں ہے کہ لوگوں کو بہتر سفری سہولیات ملیں ۔ صرف بڑے لوگوں کو خوش کرنے اوربڑے بڑے منصوبے شروع کرنے کی بات ہورہی ہے ماس ٹرانزٹ نظام کے لیے چین سے تعاون اور امداد کی درخواست لیکن اپنی شٹل ٹرین چلانے سے قاصر ہیں ۔ شاید اس لیے کہ ان کو کمیشن کی مد میں ماس ٹرانزٹ کی اسکیم میں اربوں کا فائدہ نظر آرہا ہے ۔ ایک بات بالکل واضح اور صاف نظر آرہی ہے کہ گوادر پورٹ کے فعال ہونے کے بعد کوئٹہ کی اہمیت کم ہوجائے گی اور بالآخر حکومت بلوچستان کو اپنا دارالخلافہ گوادر کے قرب و جوار میں تعمیر کرنا پڑے گا ۔ اربوں ڈالر تجارت اور آمدنی کے ذرائع کے قریب نیا دارالخلافہ گوادر کے قریب بنے گاکوئٹہ صرف ایک صحت افزاء مقام کے طورپر استعمال ہوگا جہاں پر ماس ٹرانزٹ اور پانی کی سپلائی کی بڑی بڑی اسکیمیں ناکام ہوجائیں گی دوسرے الفاظ میں قومی دولت ضائع ہوگی ۔