|

وقتِ اشاعت :   March 12 – 2017

کوئٹہ : بلوچ نیشنل فرنٹ کی جانب سے آج کوئٹہ پریس کلب کے سامنے بلوچ خواتین کی اغواء کے خلاف مظاہرہ کیا گیا۔ مظاہرین نے ہاتھوں میں بینرز اور پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے جن پر بولان، سبی، مشکے اور مکران کے علاقوں میں آپریشنوں کی بندش اور خواتین و بچوں سمیت لاپتہ افراد کی بازیابی کے حوالے سے نعرے درج تھے۔ مظاہرے میں بلوچ خواتین و بچوں نے شرکت کرکے مطالبہ کیا کہ بلوچستان میں جاری کاروائیوں کے دوران خواتین پر تشدد اور خواتین کا اغواء فوری طور پر بند کی جائے۔ انہوں نے پریس کلب کے سامنے شدید نعرہ بازی کرتے ہوئے مشکے کے علاقوں سے اغواء ہونے والے 30کے قریب خواتین کی فوری بازیابی کا مطالبہ کیا۔ مظاہرین سے خطاب میں بلوچ نیشنل فرنٹ کے خواتین رہنماؤں نے کہا کہ بلوچستان بھر میں ظلم کا بازار فورسز نے گرم کر رکھا ہے۔ میڈیا کو خاموش رہنے پر مجبور کر کے بلوچستان کو باقاعدہ ایک جنگ زدہ خطہ بنایا جاچکا ہے۔ روزانہ فورسز دیہاتوں پر حملہ آور ہوکر انہیں صفحہ ہستی سے مٹا رہے ہیں۔ دیہاتوں کو جلانے کے بعد وہاں کی خواتین کو شیر خوار بچوں و بزرگوں سمیت اغواء کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مشکے میں گزشتہ چار دنوں کے دوران کم از کم 30کے قریب خواتین و بچوں کو فورسز مختلف علاقوں سے اٹھا کر اپنے کیمپوں میں منتقل کرچکے ہیں۔ خواتین کا اغواء اب باقاعدہ ریاستی کاؤنٹر انسرجنسی حکمت عملی کا حصہ بن چکا ہے، جو کہ ایک خطرناک پالیسی ہے۔ بی این ایف کے رہنماؤں نے کہا کہ بلوچستان میں میڈیا پر مکمل پابندی عائد کی گئی ہے۔ دوران آپریشن فورسز کے اہلکار مواصلاتی نظام کو اپنے کنٹرول میں لیکر کئی دنوں تک بند کردیتے ہیں، اور کئی ایسے علاقے ہیں کہ وہاں مواصلاتی نظام موجود ہی نہیں ہے، اور ان علاقوں کی آمدورفت کے راستے بھی فورسز کی کنٹرول میں ہیں، اس لئے خواتین کے اغواء سمیت دوسرے اندوہناک واقعات کو بروقت میڈیا تک پہنچانا مشکل کام ہے۔ بی این ایف کے رہنماؤں نے کہا ریاستی فورسز اور اس کے آلہ کار ہمارے دعوؤں کو منفی پروپگنڈہ کہہ کر ہمیشہ ٹال دینے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن پھر اپنے ہی بیانات میں اپنے دعوؤں سے مکر جاتے ہیں۔ وزیرداخلہ سمیت دوسرے حکام کی تضاد بیانی سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ بلوچستان کے حوالے سے نام نہاد وزراء کس حد تک واقفیت رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان کی صوبائی اسمبلی عوامی نمائندوں کے لئے نہیں بلکہ فورسز کے نمائندوں کے لئے ہے۔ تمام پارلیمنٹیرین اپنی بے اختیاری کا ایک سے زیادہ مرتبہ اظہار کرچکے ہیں، لیکن چونکہ وہ اپنی ضمیر کا سودا آسان قیمت پر لگا چکے ہیں، اس لئے اس طرح کے خود ساختہ عوامی نمائندے نہ خواتین کی اغواء کے مسئلے پر کچھ بولتے ہیں اور نہ ہی بلوچ نسل کشی کے معاملات پر ان کی زبان سے کبھی کسی نے کچھ سنا ہے۔