جمعیت علمائے اسلام کے رہنماء سردار عبدالرحمان کھیتران نے بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں یہ انکشاف کیا کہ موجودہ اتحادی حکومت نے 400ملازمتوں پر بھرتی میرٹ پر نہیں بلکہ قرعہ اندازی کے ذریعے کی ہے۔ یہ کیوں کیا گیا ، اس کی وجوہات نہیں بتائی گئیں، نہ ہی حزب اختلاف کے رکن صوبائی اسمبلی نے تفصیلات ایوان کے سامنے پیش کیں۔ دوسری جانب اتحادی وزراء نے اجلاس کے دوران اس کی تصدیق یا تردید نہیں کی بلکہ ایک وزیر با تدبیر نے ایوان کو یہ یقین دہانی ضرور کرائی کہ متعلقہ وزیر ایوان میں آ کر بذات خود اس کا جواب دیں گے کہ انہوں نے کیوں ایسا کیا اورمروجہ قوانین کی خلاف ورزی کی ۔ سابق وزیر خزانہ عاصم کرد نے ایوان کے اندر اس کی تصدیق کی بلکہ دوسرے دن اخبارات میں ان کا بیان شائع ہوا کہ محکمہ نظم و نسق نے 400افراد قرعہ اندازی کے ذریعے بھرتی کیے جس کی انہوں نے شدید الفاظ میں مذمت بھی کی ۔ انہوں نے یا دوسرے ارکان اسمبلی نے یہ مطالبہ نہیں کیا کہ ان 400افراد کو ملازمت سے بر طرف کیاجائے اور ان ملازمتوں کے لئے میرٹ کا طریقہ کار اپنا جائے ۔ متعلقہ وزیر کا تعلق نیشنل پارٹی سے ہے جو مسلم لیگ ن اور پشتونخوا پارٹی کا اتحادی ہے اور تینوں مل کر صوبے پر حکمرانی کررہے ہیں ابھی تک پارٹی کی اعلیٰ ترین قیادت خصوصاً سابق وزیر اعلیٰ جو ایوان کے رکن بھی ہیں نے اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا نہ ہی ابھی تک اس عمل کی تائید کی ۔ظاہر ہے نیشنل پارٹی اچھی حکمرانی کا دعویدار ہے اور اپنے ایک رکن کے اس عمل کی تائید نہیں کرے گی ۔ بہر حال اچھی حکمرانی کے لیے خصوصاً پسماندہ صوبہ بلوچستان میں یہ ایک اچھی مثال نہیں ہے۔ حال ہی میں حکومت نے چالیس ہزار ملازمتوں کا اعلان کیا تھا شاید کسی حد تک اس کی تیاری بھی ہورہی ہو کہ بڑی تعداد میں لوگ بھرتی کیے جائیں ۔ ایسی صورت میں عوام الناس حکومتی وزیروں کے فیصلوں کو شک کی نگاہ سے دیکھیں گے کیونکہ وہاں بھی ملازمتوں کی بندر بانٹ کا خطرہ ہے سوائے ان پوسٹوں کے جن پر بلوچستان پبلک سروس کمیشن بھرتی کرے گا۔ ہم وزیر اعلیٰ سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ اس سلسلے میں اپنا کردار اداکرتے ہوئے ان 400پوسٹوں پر دوبارہ انٹرویو کرانے کے احکامات جاری کریں گے اور آئندہ کسی وزیر کو اتنے اختیارات نہیں دیں گے کہ وہ عوامی حقوق پر حملہ آور ہو ۔