وزیراعظم نواز شریف نے گوادر کے جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے یہ اعلان کیا کہ ان کی حکومت گوادر میں سمندری پانی کو میٹھا بنانے کا ایک بڑا پلانٹ لگائے گی جس سے گوادر کو پچاس لاکھ گیلن پانی روزانہ فراہم کیاجائے گا۔ یہ پلانٹ دوسری اسکیموں سے الگ ہے جس سے گوادر کے قرب وجوار میں دریاؤں پر بند تعمیر ہوں گے ،پانی کے ڈیم بنائے جائیں گے جس سے گوادر اور اس کے قرب و جوار کے علاقوں کو پینے کا پانی ملے گا ۔وزیر اعظم کا اعلان خوش آئند ہے لیکن اگران سب کو یکجا کرنے کے باوجود بھی شاید گوادر پورٹ اور اس سے ملحقہ صنعتی اور تجارتی علاقوں کی پانی کی ضروریات پوری نہیں ہونگی کیونکہ گوادر پورٹ اتنا بڑا ہوگا کہ اس کے لیے بہت زیادہ پانی کی ضرورت ہوگی اور اس ضرورت کو پوری کرنا آسان کام نہیں ہوگا۔ پچاس لاکھ گیلن پانی صرف گھریلو اور پینے کے لئے استعمال ہوگا۔گوادر کی بندر گاہ کی ضروریات پوری نہیں کرے گا۔ جب گوادر کی بندر گاہ مکمل ہوگی تو اس میں دوسری باتوں کے علاوہ 100سے زیادہ جہاز آئیں گے اورپورے وسطی ایشیاء ،چین اور روس کے ساتھ بیرونی تجارت ہوگی ۔ اس کے لئے پانی نہیں ہوگا اس کے ساتھ ساتھ گوادر پورٹ کی صنعتی اور تجارتی سرگرمیاں بھی اپنے عروج پر ہوں گی جس کی منصوبہ بندی آج ہی سے کرنی چائیے۔ ملک میں انتخابات کی مہم شروع ہوگئی ہے اس کا آغاز نواز شریف نے کردیا ہے لہذا ان تمام اعلانات کو صرف انتخابی اعلانات ہی سمجھا جائے گا۔ اس سے قبل حکومت بلوچستان نے ’’ہنگامی‘‘ بنیادوں پر گوادر کے قریب دو ایسے پلانٹس لگائے تھے تاکہ گوادر کے عوام کو صاف اور پینے کا پانی فراہم ہو ۔ ان دونوں پلانٹس پر غریب ترین صوبہ بلوچستان کے اربوں روپے خرچ کیے گئے ۔ان دونوں منصوبوں پر جام یوسف مرحوم کی حکومت کے دوران ہنگامی طورپر عمل ہوا ۔ ایک دہائی سے زیادہ عرصہ گزرنے کے بعد گوادر کے عوام کو ان دو منصوبوں سے ایک بوند پانی بھی نہیں ملا ۔ان اسکیموں کی بھرپور تحقیقات ہونی چائیے اگر ان منصوبوں میں کرپشن ہوئی ہے تو ذمہ داران کو نہ صرف گرفتار کیاجائے بلکہ ان کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیاجائے ۔یہ جاننا عوام کا بنیادی حق ہے کہ وہ اربوں روپے کیسے خرچ ہوئے ؟ کس نے سیاسی دباؤ استعمال کرکے ان منصوبوں پر عمل کروایا اور اربوں روپے ہڑپ کرگئے ۔ امید ہے کہ حکومت اپنے چہیتے لوگوں کے خلاف بھی کارروائی کرے گی ۔