|

وقتِ اشاعت :   March 18 – 2017

سیکرٹری تعلیم عبداللہ جان کو نا معلوم مسلح اغواء کاروں نے اس وقت اغواء کر لیا جب وہ اپنے گھر سے دفتر جانے کے لیے روانہ ہوئے تو مسلح اغواء کاروں نے ان کوڈرائیور سمیت اغواء کر لیا البتہ ڈرائیور کو تھوڑی دور جانے کے بعد رہا کردیا گیا۔ حالیہ دنوں میں اغواء کا یہ سنگین ترین واقعہ ہے کہ صوبے کا اعلیٰ ترین افسر بھی محفوظ نہیں اور وہ صوبے کے دارالخلافہ کے گنجان آبادی والے علاقے سے اغوا ء ہوجاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس شہر میں بھی کوئی محفوظ نہیں تمام گزشتہ سیکورٹی کی کارروائیاں رائیگاں گئیں ۔اغواء کاروں کے متعلق معلوم نہ ہو سکا کہ یہ کون لوگ تھے، ان کے کیا مقاصد تھے اور نہ ہی کسی سیاسی یا دہشت گرد گروہ نے اس کا دعویٰ کیا ۔معاملات ایسے پیچیدہ ہیں کہ کسی قسم کی قیاس آرائی بھی ممکن نہیں ۔ ویسے عبداللہ جان ایک نیک انسان ہیں غالباً ان کو اغواء دولت یا تاوان کی وصولی کیلئے نہیں کہا گیا ہوگا۔ تاہم جرائم پیشہ افراد سے متعلق کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ انہوں نے کس کے کہنے پر ان کو اغواء کیا ۔ بہر حال کوئی چیز واضح نہیں ہر چیز مبہمہے ۔ ادھر سرکاری ملازمین اور افسران احتجاج کررہے ہیں، ان کا حکومت سے مطالبہ ہے کہ عبداللہ جان کو بہ حفاظت جلد سے جلد بازیاب کرایاجائے۔ وزیر اعلیٰ نے بھی اس کا نوٹس لیا اور متعلقہ حکام کو ہدایات جاری کیں کہ عبداللہ جان کو جلد سے جلد بازیاب کرایا جائے ۔ ادھر عبداللہ کے خاندان کے افراد نے بھی اغواء کے خلاف مظاہرہ کیا اور ان کی بازیابی کا مطالبہ کیا ۔ گزشتہ سالوں کو ئٹہ شہر کے نامور شہری اغواء ہوئے تھے ان کو تاوان کیلئے اغواء کیا گیا تھا اور ان سب کو تاوان کی وصولی کے بعد رہا کردیاگیا تھا۔ ممکن ہے اس بار پھر جرائم پیشہ افراد تاوان کی ادائیگی کا مطالبہ کریں اور تاوان کی وصولی کے بعد ہی عبداللہ جان کو رہا کردیں۔ ہم ان کالموں میں مطالبہ کرتے آئے ہیں کہ تاوان کی رقم حکومت ادا کرے تاکہ حکومت کو یہ احساس ہو کہ ہر شہری کی زندگی کا تحفظ حکومت کا فرض ہے اور اس فرض کے احسا س کے طورپر ہم نے یہ مطالبہ کیا تھا کیونکہ جب حکومت تاوان کی ادائیگی کرے گی تو احساس ذمہ داری کے ساتھ ساتھ اسے سبکی کا سامنا بھی کرنا پڑے گا اور شاید یہ چیز اسے مجرموں کا قلع قمع کرنے کا جذبہ اور احساس عطا کرے ۔