|

وقتِ اشاعت :   March 19 – 2017

کوئٹہ : لاپتہ بلوچ اسیران وشہداء کے بھوک ہڑتالی کیمپ کو 2592دن ہوگئے کیمپ میں اائے ہوئے بی ایس او آذاد کے ایک وفد کے ساتھ وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ بلوچ نے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ بلوچستان میں طلباء نوجوانوں سیاسی کارکنوں کی فورسز خفیہ اداروں کے ہاتھوں اغواء ہو رہی ہے اس وقت صورتحال یہ ہے کہ بلوچ طلباء انقلابی تنظیم بی ایس او آزاد کے مرکزی چیئرمین زاہد بلوچ 18مارچ 2014 سے خفیہ اداروں کے ہاتھوں اغواء کئے جانے کے بعد تاحال لاپتہ ہیں لواحقین کی جانب سے متعلقہ ریاستی اداروں سے بھی متعدد بار رابطہ کرنے کے باوجود ڈھٹائی سے زاہد بلوچ کے ریاستی تحویل سے انکار کیا جا رہاہے لاپتہ بلوچ طالب رہنما کے اہلخانہ نے انصاف کے دعویدار اداروں سے بھی رابطہ کیا مگر ہر طرف سے طفل تسلیاں اور مایوسی کے سوا کچھ نہیں آیا ۔ دوسری طرف بلوچ کی بے آساہیوں اور معصوم کمسن و شیر خوار بچے حکمرانوں کے شہر اسلام ااباد میں دس روز سے زاہد علامتی بھوک ہرتال جاری رکھیں گی مگر خفیہ اداروں والے وہاں پر انہیں تنگ کرنا شروع کیا ماما قدیر بلوچ نے مزید کہاکہ یہ بے حسی صرف ریاست اس کی بھی محافظ قوتوں اور سیاسی ودیگر حلقوں میں ہی پائی نہیں جاتی بلکہ اقوام متحدہ جیسا وہ ادارہ بھی جس کی اساسی دستاویز ونکات میں قومی خود مخاتاری و آذادی انسانی حقوق کی پاسداری والین ترجیحات قرار پائی تھیں بلوچستان میں نو آبادیاتی قبضے اور بلوچ نسل کشی ریاستی پالیسوں سے مسلسل نظریں چرار رہاہے اس کردار سے ایسا لگتا ہے کہ اقوام متحدہ نے حکمران نوا آبادیاتی ریاستوں کے مفادات کے تحٖفظ ایسی عینک لگا رکھی ہے جس میں استعماری وجبری تشدد اور انسانی حقوق کی سنگین ترین خلاف ور زیوں کے شکار و متنازعہ خطے نظر نہیں آئے ۔