کوئٹہ : بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کی چیئرپرسن بانک کریمہ بلوچ نے سابقہ چیئرمین زاہد بلوچ کی گمشدگی کو تین سال مکمل ہونے پر کینیڈا میں ایک پریس کانفرنس کے دوران میڈیا کو زاہد بلوچ کی گمشدگی کے حوالے سے آگاہ کیا۔ پریس کانفرنس کے دوران بی این ایم کے رہنماء ظفر بلوچ اور مرید بلوچ بھی ان کے ہمراہ تھے۔ کریمہ بلوچ نے زاہد بلوچ کی گمشدگی اور عدم بازیابی پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان سے طلباء کی گمشدگی کا سلسلہ پچھلے کئی سالوں سے جاری ہے۔ریاست نے بی ایس او آزاد کی جمہوری جدوجہد کے باجود تنظیم پر پابندی عائد کرکے کارکنوں اور رہنماؤں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کیا ہے، جو کہ اب تک بی ایس او آزاد کے ایک سو کارکنوں کی شہادت اور سینکڑوں کی اغواء اور گمشدگی کا سبب بن چکا ہے۔ زاکر مجید بلوچ، زاہد بلوچ، شبیر بلوچ، عمران بلوچ، مشتاق اور آصف سمیت تنظیم کے لیڈران سالوں اور مہینوں سے فورسز کی خفیہ حراستی مراکز میں بند ہیں، جہاں انہیں شدید ذہنی اور جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ کریمہ بلوچ نے کہا کہ 18مارچ 2014کو زاہد بلوچ کو اس کے سامنے فورسز نے آنکھوں پر پٹیاں باندھ کر اپنے ساتھ لے گئے، اس واقعے کے خلاف بلوچستان بھر سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں تنظیم وقتاََ فوقتاََ اپنا احتجاج ریکارڈ کرتی رہی ہے، لیکن اب تک تنظیم کے سابقہ چیئرمین سمیت کوئی گمشدہ لیڈر بازیاب نہیں ہوا ہے، البتہ گمشدگیوں کا سلسلہ روز بہ روز شدید تر ہورہا ہے۔ بی ایس او آزاد نے عالمی اداروں سے اپیل کی کہ وہ سیاسی کارکنوں کی خاندان کے افراد کی حفاظت کے لئے فوری آواز اٹھائیں کیوں کہ فورسز کاؤنٹر انسرجنسی حکمت عملی کے طور پر سیاسی کارکنوں کے خاندان کے افراد پر تشدد اور انہیں لاپتہ کرنے کی پالیسی پر عمل پھیرا ہے، بلوچستان کی سیاسی جدوجہد پر اس پالیسی کے منفی اثرات مرتب ہوں گے۔