|

وقتِ اشاعت :   March 28 – 2017

خضدار: بلوچستان نیشنل پارٹی کے سینٹر ل کمیٹی کے ممبر سابق رکن قومی اسمبلی میر عبد الرؤف مینگل نے کہا ہے کہ جنگ کی ماحول میں کاروبار نہیں ہو سکتا ہے سی پیک کے ایک قافلہ کو گذارنے کے لئے کڑوں روپیہ سیکورٹی پر صرف کیا گیا اگر سی پیک کو بلوچستان کے لوگوں کی مشاورت و رضا مندی سے بنا ئی جاتی تو کروڑوں روپیہ سیکورٹی کے بجائے بلوچستان کے لوگوں کی ترقی پر صرف ہوتے تو ذہنی دباؤ بھی کم ہوتا لیکن بد قسمتی یہ ہے کہ یہاں پر زمینی حقائق و لوگوں کے رضا مندی و شمولیت کے بغیر پا لیسیاں ترتیب دی جاتی ہیں بلو چستان نیشنل پارٹی نے پاکستان کی عدالت عالیہ میں پانچ نکات پیش کیا تھا کہ بلوچستان مین فوجی آپریشن کو روک دیا جائے انسانی حقوق کی خلاف ورزی سے بلوچستان کے لوگوں میں دوریاں و نفرت پیدا ہورہا ہے ریاست کے خلاف کام کرنے والے لوگوں کو عدالتوں میں پیش کرکے ان کا اوپن ترائل کیا جائے لیکن یہاں بد قسمتی سے لاشوں کی تک کی بے حرمتی کی گئی انسانوں کو زندہ درگور کرنے والوں کے خلاف کوئی کاروائی عمل میں نہیں لایا گیا اس سلسلے میں بننے والی کمیشن کا رپورٹ آج تک کیوں سامنے نہیں بلکہ اس کمیشن ان لوگوں کے گھروں میں جاکر احترام سے ان کا بیان ریکارڈ کیا گیا ان خیالا ت کا اظہار میر عبد الرؤف مینگل خضدار پریس کلب میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کیا انہوں نے کہا بی این پی نے پاکستان کے تمام سیاسی جماعتوں کی مشاورت سے اپنے طلب کردہ آل پارٹیز کانفرنس میں سی پیک بلوچستان کے دیگر مسائل کے بارے میں جو متفقہ مطالبات پیش کیا تھا ان کو بھی حکومت کی جانب سے نظر انداز کیا گیاعبد الرؤف مینگل نے کہا کہ بی این اپی، سی پیک سمیت کسی بھی ترقیاتی عمل کا مخالف نہیں ہے لیکن سوال یہ ہے کہ سی پیک سے بلوچستان و اہل بلوچستان کو کس قدر نفع پہنچیگا سب سے زیادہ وسائل زمین بلوچستان کا استعمال ہو اس کے بدلے ہمیں ہوٹلنگ یا درجہ چہارم کے اسامیوں سے خوش کی جائے یہ ترقی کس نوعیت کی ہوگی اس کی وضاحت ضروری نہیں ہے بی این پی نے روز اول سے موقف رکھتا ہے کہ گوادر میں بلوچوں کی تشخص و ان کے جد ی و پدری اراضی کو بچانے کے لئے قانون سازی کیا جائے لیکن ہماری ان باتوں پر کوئی توجہ نہیں دیا گیا جبکہ بین الاقوامی مسلمہ اصولوں کے مطابق با ہر سے آنے والے کمپنیاں اور کارو بار کرنے والے لوگ 48فیصد کی شرح سے سرمایہ کاری کرتے ہیں یہی فارمولہ متحدہ عرب امارات و دیگر ممالک میں اپنا یا گیا جبکہ گودار میں ایک سازش کے تحت مقامی لوگوں کی غربت و افلاس سے فائدہ اٹھا کر ان کی اراضی کو کوڑیوں کے دام خریدا جارہا ہے بلوچستان جیسے کم آبادی والے صوبہ میں با ہر کے کروڑوں لوگ آباد ہونگیں تو ہماری شناخت بر ی طرح سے مسخ ہوگی افسوس یہ ہے کہ ہم جب ان باتوں کے بارے مین لب کشائی کرتے ہیں تو ہمیں ملک دشمن غدار کا لقب دیا جاتا ہے ۔