|

وقتِ اشاعت :   March 28 – 2017

بلوچستان میں 1953ء میں قدرتی گیس سوئی کے مقام پر دریافت ہوئی اسی مناسبت سے اس کو سوئی گیس کا نام بھی دیا گیا اس کے بعد پیرکوہ ‘ لوٹی اور اوچ میں بھی قدرتی گیس دریافت ہوئی ،یہ بگٹی قبائلی علاقے میں واقع ہیں۔ تقریباً بلوچستان کے تمام علاقوں کو سوئی گیس کی سہولت سے محروم رکھا گیا ، یہ صورت حال آج بھی برقرار ہے بلوچستان کے 29اضلاع اپنے ہی گیس سے محروم ہیں اور ایسا جان بوجھ کر کیا گیا تاکہ ترقی کے عمل میں زیادہ سے زیادہ رکاوٹیں حائل رہیں۔ بلوچستان کو دانستہ طورپر قدرتی گیس ‘ بجلی ‘ پانی اور سڑکوں سے محروم رکھا گیا ۔ ستر سالوں سے بلوچستان میں بنیادی ڈھانچہ ہی تعمیر نہیں ہوا ایسے میں گوادر بندر گاہ کو فعال بنانے میں سال نہیں دہائیاں درکار ہوں گی ۔ سوئی گیس بھارتی پنجاب کے سرحدی گاؤں تک پہنچائی گئی مگر بلوچستان کو ساٹھ سال گزرنے کے بعد بھی سوئی گیس سے محروم رکھا گیا ہے ان میں بلوچستان کے دوسرے اور تیسرے بڑے شہر خضدار اور تربت شامل ہیں جو آبادی کے لحاظ سے کوئٹہ کے بعد بلوچستان کے بڑے شہر ہیں ۔ یہ دونوں شہر دو بڑے خطوں کی نمائندگی کرتے ہیں اور اپنے خطوں مکران اور جھالا وان کے مرکزی اور کلیدی شہرہیں جن کو ہر سہولت سے محروم رکھا گیا ہے ۔ نصف صدی کے بعد بلوچستان کے دارلخلافہ کوئٹہ کے دو قریبی شہروں مستونگ اور پشین کو چند ایک سہولیات فراہم کی گئیں تو وفاقی حکمرانوں نے یہ دعویٰ کیا کہ بلوچستان کو ترقی دی جارہی ہے۔ باہر سے آنے والے حکمران اور افسران انہی دونوں شہروں کو بلوچستان سمجھتے تھے اور پورے صوبے کو نظر انداز کرتے تھے جب بھی نواز شریف اقتدار میں آئے ان کی توجہ کا مرکز پنجاب تھا اور تاحال ہے جو ان کا حلقہ انتخاب ہے ، پنجاب کے حکمرانوں میں ایک گھمنڈ ہے، وہ پنجاب ہی کو پاکستان سمجھتے ہیں اور باقی صوبوں کے ساتھ ان کا رویہ نوآبادیاتی طرز ہے ۔ نواز شریف پاکستان کے ایک انتہائی موقع پرست رہنما ثابت ہوئے ۔ اپنے موجودہ دور حکومت کے پورے چار سال انہوں نے سندھ کو بلکہ مسلم لیگ کے اہم ترین رہنماؤں کو نظر انداز کیا ان کے فون کال بھی نہیں سنے ۔ اب الیکشن کے سال وہ سندھ پہنچ گئے اور بڑے بڑے دعوے کرنے شروع کردئیے ۔ اسی الیکشن سال کی وجہ سے انہوں نے اپنے صوابدیدی فنڈ سے 27ارب روپے سے زائد رقم مختص کی ہے جس سے اس سال 91سیاسی حلقوں کو سوئی گیس کی سہولیات فراہم کی جائیں گی ۔ 99فیصد سیاسی حلقے مسلم لیگ ن کے ہیں اور سب کے سب پنجاب میں واقع ہیں سوائے چندایک معروف سیاستدانوں کے حلقوں کے جن میں میر ظفر اللہ خان جمالی ‘ وزیراعلیٰ کے پی کے خٹک صاحب اور آفتاب شیر پاؤشامل ہیں ۔27ارب روپے کی خطیر رقم انہوں نے شہنشاہ پاکستان کے طورپر مختص کی اور یہ عین ان کی مرضی اور منشاء کے مطابق ہے ۔ اس رقم کا صوبائی اور وفاقی بجٹ سے کوئی تعلق نہیں نہ ہی یہ 91سیاسی حلقے وفاقی یا پنجاب کا سالانہ بجٹ کا حصہ ہیں چونکہ وہ کسی ادارے کے سامنے جوابدہ نہیں ہیں انہوں نے پنجاب کو سوئی گیس پہنچانے کے لئے 27ارب روپے کی رقم رکھی ہے ۔ ان حلقوں میں کیپٹن صفدر جو ان کے داماد ہیں اور فواد چوہدری کے حلقے شامل ہیں جہاں پر ایک ایک ارب روپے سے زائد کے اخراجات آئیں گے ۔یہ فیصلہ اقربا پروری کے زمرے میں آتا ہے ۔وفاق پاکستان کے حکمرانوں نے خضدار اور تربت کے دونوں بڑے بڑے خطوں اور عوام کو ستر سالوں سے سوئی گیس کی سہولت سے محروم کررکھا ہے بلکہ بلوچستان کے 29اضلاع محروم ہیں ۔ ہونا تو یہ چائیے تھاکہ سب سے پہلے بلوچستان کے علاقوں کو سوئی گیس پہنچائی جاتی کیونکہ سوئی گیس پر سب سے پہلے بلوچستان کا حق ہے ۔لیکن ظلم خدا کا نہ بلوچوں کو سوئی گیس دی گئی اور نہ ہی اس کی قیمت اور اگر بلوچ احتجاج کرے تو غدار ۔ اگر ساٹھ سالوں سے سوئی گیس نہ ہوتی تو تیل درآمد کرنے کے اخراجات دو گنے ہوتے ۔ اسی مناسبت سے گزشتہ ساٹھ سالوں میں تیل کی درآمد پراخراجات تقریباً 360ارب ڈالر بنتے ہیں ، اس لیے وفاقی حکومت بلوچستان کو360ارب ڈالر ادا کرے ۔ صرف دس ارب روپے سالانہ نہیں جو گیس سرچارج کی مد میں صوبائی حکومت کو دئیے جا تے ہیں، یہ گیس کی معمولی رائلٹی اس کے علاوہ ہے۔ حکومت بلوچستان اور بلو چ رہنماء وفاق سے 360ارب ڈالر گیس کی قیمت کا مطالبہ کریں اور موجودہ طریقہ کار جس سے بلوچستان کو صرف دس ارب روپے سالانہ دئیے جاتے ہیں اس کو رد کردیا جائے ،کیونکہ ساری گیس سندھ اور پنجاب میں استعمال ہورہی ہے بلوچستان کے 29اضلاع آج بھی قدرتی گیس سے محروم ہیں لہذا اس کی قیمت ہی دی جائے ۔