|

وقتِ اشاعت :   March 29 – 2017

کوئٹہ : بلوچوں کی تاریخ تہذیب و تمدن کے بقاء کی جدوجہد اولین ذمہ داری ہے صاف شفاف مردم شماری نہ ہوئی تو یہ پورے بلوچستانیوں کیلئے مسائل کا سبب بنے گا چالیس لاکھ افغان مہاجرین کو مردم شماری سے دور رکھا جائے بلوچ آئی ڈی پیز کو شامل کرنا حکمرانوں کی ذمہ داری بن چکی ہے ان خیالات کا اظہار بلوچستان نیشنل پارٹی کے جانب سے مغربی بائی پاس میں عوامی رابطہ مہم کے سلسلے میں کلی امین آباد بروری میں کارنر میٹنگ سے مرکزی سیکرٹری اطلاعات آغا حسن بلوچ ایڈووکیٹ ، مرکزی کمیٹی کے رکن غلام نبی مری ، ضلعی قائمقام صدر یونس بلوچ ، ضلعی جوائنٹ سیکرٹری محمد لقمان کاکڑ ، حاجی وحید لہڑی ، حاجی فضل الحق رئیسانی ، عبدالحئی کھیازئی ، میر شعیب سرپرہ ، ثناء اللہ کھیازئی نے خطاب کرتے ہوئے کیا اسٹیج سیکرٹری کے فرائض بسم اللہ بلوچ نے سر انجام دیئے مقررین نے کہا کہ بلوچ تاریخ تہذیب ، بقاء کی جدوجہد اولین ترجیحات میں شامل ہے بلوچوں نے ہمیشہ اہم مسائل پر مشترکہ جدوجہد کی اہمیت دی ہے تاکہ ہزاروں سالوں پر محیط قومی شناخت اور بقاء کی سلامتی یقینی ہو سکے بی این پی آج بھی سردار اختر جان مینگل کی قیادت میں جدوجہد کر رہی ہے ہم نے ہمیشہ مذہبی جنونیت اور انتہاء پسندی کی مخالفت کی ہے آج بھی اقلیتی برادری ہماری سرزمین پر آباد اور بلوچ حقوق کیلئے جدوجہد کر رہے ہیں ہم سیکولر سوچ رکھ کر انسانیت کی پرچار کر رہے ہیں مقررین نے کہا کہ بی این پی کا موقف ہے کہ چالیس لاکھ افغان مہاجرین کو باعزت طریقے سے ان کے وطن واپس بھیجا جائے بالخصوص مردم شماری سے انہیں دور رکھا جائے گہری اور گھناؤنی سازش کے ذریعے حکمران بلواسطہ یا بلاواسطہ افغان مہاجرین کو مردم شماری کا حصہ بنانا چا رہے ہیں معزز عدالت کے فیصلے کے بعد حکمرانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ افغان مہاجرین کو مردم شماری سے دور اور بلوچ آئی ڈی پیز کو مردم شماری کا حصہ بنایا جائے اور بلوچستان کے دور دراز بلوچ علاقوں میں خانہ شماری ، مردم شماری سست روی کا شکار ہے کوئٹہ کے بلوچ علاقوں پر مردم شماری کا پہلا فیز سست روی کا شکار رہا محکمہ شماریات اور انتظامیہ کے ارباب و اختیار کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ مردم شماری خانہ شماری کا عمل میں تیزی لائیں اب تک کوئٹہ کے مشرقی علاقے سنجدی ، ژڑخو ، ڈیگاری سمیت دیگر علاقوں میں خانہ شماری ، مردم شماری کا عمل شروع نہیں کیا گیا مردم شماری خانہ شماری کا عمل یقینی بنایا جائے سی پیک اور مردم شماری پر بلوچ قوم کے جو خدشات و تحفظات ہیں انہیں ختم کرنے کی ضرورت ہے قومی یکجہتی جرگہ نے بھی جن خدشات و تحفظات کا اظہار کیا وہ بلوچستان کے ہر طبقہ فکر کی آواز ہے خدشات و تحفظات کو دور کرنے کیلئے اقدامات کئے جائیں مقررین نے کہا کہ بلوچستان کی سرزمین وسائل سے مالا مال ہے لیکن لوگ آج کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں 2013ء کے الیکشن میں جو جعلی قیادت کو آگے لایا جائے انہوں نے عوامی خدمت کی بجائے اپنے مفادات کا تحفظ کیاجب تک انتخابات صاف وشفاف نہیں ہوں گے اس وقت تک عوامی مسائل کا حل ممکن نہیں اور مفادات پرست لوگ آگے آتے رہیں گے اس اثناء بابل رئیسانی ، محمد حنیف مینگل ، علی اصغر ، گلاب خان مینگل ، حمید اللہ بلو چ سمیت دیگر دوستوں نے پارٹی میں شمولیت اختیار کرتے ہوئے کہا کہ سردار اختر جان مینگل کی قیادت وقت و حالات کی ضرورت ہے ۔دریں اثناء بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی بیان میں کہا گیا ہے کہ صوبائی محتسب سیکرٹریٹ میں ملازمین کا پروموشن کوٹہ ختم کرکے بھرتیاں کی جا رہی ہیں جوملازمین کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کے متراد ف ہے 1991ء کی پالیسی کو نظر انداز کر کے بلوچ علاقوں و ڈویژن کو نظر انداز کر کے استحصال کا نشانہ بنایا جا رہا ہے حالانکہ ارباب و اختیار کی جانب سے این ٹی ایس کے ذریعے تعیناتی کے احکامات جاری کئے جا چکے ہیں 1991ء کی زونل کوٹہ کی پالیسی موجود ہے اوپن میرٹ کر کے غیور بلوچوں کے ساتھ ناانصافی کی جا رہی ہے صوبائی محتسب سیکرٹریٹ بلوچستان کا اہم ادارہ ہے جس کا مقصد عوام کو سرکاری محکموں سے انصاف دلانا ہے لیکن اب اسی ادارے میں صوبائی کوٹہ سسٹم اور پروموشن ختم کر نے سے بہت سے سوالات جنم لے رہے ہیں برائے راست بھرتیوں کا عمل اور زونل کوٹہ ختم کرنا قابل مذمت ہے بیان میں کہا گیا ہے کہ صوبائی محتسب کی پوسٹوں پر اوپن میرٹ کی آڑ میں من پسند افراد کو بھرتی کرنے کی پالیسی اپنائی گئی ہے جو بلوچستان کے اضلاع کے ساتھ ناانصافی کے مترادف عمل ہوگا بلوچستان کے عوام کو نظر انداز کیا جا رہا ہے 80فیصد ملازمین کا تعلق چند اضلاع سے ہے بیان میں کہا گیا ہے کہ 1991ء کی پالیسی کے مطابق بھرتیاں اور زونل کوٹہ سسٹم کو بحال کیا جائے صاف شفاف طریقے سے بھرتیاں کا عمل یقینی بنایا جائے ۔