سیاسی رہنماؤں نے ملک بھرمیں انتخابات میں حصہ لینے کے لئے سیاسی سرگرمیاں شروع کردی ہیں وزیراعظم پاکستان نے مسلم لیگ ن کے کارکنوں کو ہدایات جاری کیں ہیں کہ وہ انتخابات کی تیاریاں کریں ۔ وزیراعظم سالوں سندھ کو نظر انداز کرنے کے بعد حالیہ دنوں سندھ کے دڑا دڑدورے کررہے ہیں اور بڑی بڑی ترقیاتی اسکیموں کا نہ صرف اعلان کر رہے ہیں بلکہ ان کے لئے رقم بھی مختص کررہے ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ جلد سے جلد انتخابات کرانے کی تیاریوں میں ہیں شاید وہ مقررہ مدت پوری کرنے سے پہلے انتخابات کرانے کا اعلان بھی کردیں۔ اس کا ایک اور اشارہ مسلم لیگ ن کے رہنماؤں نے یوں دیا کہ وزیراعظم نے ناراض رہنماؤں کو خوش کرنے کی کوشش کی ، چند ایک غیر اہم لوگ جلسے اور ملاقاتوں میں نظر آئے مگر سندھ کے معروف سیاسی شخصیات اس دورے کے دوران وزیراعظم کے قریب نہیں آئے ۔ وزیراعظم کا دورہ حیدر آباد دراصل مسلم لیگ کی ساکھ کو بلند کرنے کی کوشش ہے ۔ انہوں نے حیدر آباد شہر کے لئے پچاس کروڑ روپے بھی مختص کیے تاکہ حیدر آباد شہر میں آلودگی کم اور صحت عامہ کی سہولیات کو بہتر بنایا جائے ۔ حیدر آباد ایم کیو ایم کا شہر ہے شاید وزیراعظم نے ایم کیو ایم سے تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کی ہے اور اتنی بڑی رقم شہر کی صحت و صفائی کے لئے دی ہے ۔ اس کے ساتھ حیدر آباد یونیورسٹی بنانے کا اعلان بھی کیا ہے یہ تمام احکامات اور اعلانات اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ وزیراعظم پاکستان نے اپنی انتخابی مہم شروع کردی ہے ۔ اس سلسلے میں انہوں نے ٹھٹھہ اور گوادر کا بھی دورہ کیا تھا، وہاں بھی اعلانات کیے خصوصاً گوادر کو صاف پانی فراہم کرنے کے پلانٹ لگانے کا اعلان کیا جس پر پانچ ارب روپے لاگت آئی گی اور روزانہ گوادر اور اس کے گردونواح کے لوگوں کو پچاس لاکھ گیلن پانی ملے گا ، اس سے گوادر کے لئے پینے کا پانی کا مسئلہ کسی حد تک حل ہوجائے گالیکن صنعتی اور تجارتی مقاصد کے لئے پانی کے دیگر ذرائع تلاش کرنے ہوں گے اگر گوادر کی بندر گاہ کو فعال بنانا ہے ۔ ناقدین کہتے ہیں کہ وزیراعظم کی جانب سے یہ محض اعلانات ہیں یہ کسی سرکاری دستاویزیا بجٹ کا حصہ نہیں ہیں اگر مسلم لیگ ن دوبارہ اقتدار میں آئی تو شاید ان پر عمل درآمد بھی ہو ۔ نئی آنے والی حکومت ان پر عمل درآمد روک سکتی ہے جیسا کہ ایران گیس پائپ لائن کے ساتھ ہوا حالانکہ یہ بین الاقوامی معاہدہ تھا اور دو ہمسایہ ممالک کے درمیان ہو اتھا ۔ پی پی پی کی حکومت ختم ہونے کے بعد مسلم لیگ ن نے اس پر عمل درآمد روک دیا ۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف نے اس وقت یہ بھی کہا تھا کہ ایران گیس پائپ لائن منصوبہ ’’ ایک فراڈ ‘‘ ہے اور یہ پنجاب کے مفاد میں نہیں ۔ ان تمام باتوں کے باوجود ایران نے اس کے خلاف کوئی درخواست نہیں دی اور نہ ہی جرمانہ کی ادائیگی کامطالبہ کیا ۔ لہذا یہ ضروری نہیں کہ وزیراعظم نے جتنے اعلانات کیے ہیں بعد میں ان پر عمل بھی ہو، ان سب کو انتخابات کے زمانے میں سیاسی اعلانات تصور کیا جائے ۔ دوسری جانب سابق صدر اور پی پی پی کے بڑے رہنماء نے بھی مسلم لیگ ن کے ساتھ مفاہمت کی پالیسی کے خاتمے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے بیٹے اور بیٹیوں کے ہمراہ انتخابی مہم میں بھر پور حصہ لیں گے اور لاہور کو اپنا انتخابی ہیڈ کوارٹر بنائیں گے، اس طرح سے ملک کی دو بڑی پارٹیاں دوبارہ ایک دوسرے کے سامنے انتخابی دنگل میں معر کہ آراہوں گی ۔ دولت کے اعتبار سے مسلم لیگ ن کو برتری حاصل رہی گی کیونکہ صنعت کاروں ‘ تاجروں اور ارب پتی لوگوں کی اکثریت مسلم لیگ کے ساتھ ہو گی۔ حال ہی میں برآمدکنندگان کو وزیراعظم نے 180ارب دینے کا اعلان کیا ، ظاہر ہے وہ تمام لوگ اس رقم سے مسلم لیگ ن کو انتخابی فنڈ بھی دیں گے ۔اس لیے دولت کے لحاظ سے مسلم لیگ ن کو برتری حاصل رہے گی پھر پنجاب میں یہ روایت ہے کہ حکمران کبھی نہیں ہارتے اور لوگ حکمرانوں کو ووٹ دیتے ہیں جیسا کہ کشمیر میں ہوا ،وہاں پر دوبارہ وفاقی حکومت کے حامیوں نے میدان مار لیا ۔ یہ حیرت کی بات ہوگی کہ اگر پی پی پی یہ انتخابات جیت جائے ۔