|

وقتِ اشاعت :   April 1 – 2017

وزارت خاجہ کے ترجمان نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ پاکستان با قاعدہ طورپر اسلامی اتحادی فوج کا حصہ ہے ۔ البتہ پاکستان کے فوج کے کردار کی تفصیلات تیار کی جارہی ہیں۔ ایک ریٹائرڈ جنرل نے نجی ٹی وی کے ٹاک شو میں یہ انکشاف کیا کہ سعودی عرب کے حکمران اور وزیراعظم پاکستان نواز شریف کے درمیان میں ملاقات میں یہ با ضابطہ طے ہوگیا تھا کہ جنرل راحیل شریف کو اسلامی افواج کے اتحاد کا سربراہ بنایا گیا ہے مسقط کی شمولیت کے بعد اس اتحاد میں شامل ملکوں کی تعداد چالیس ہوگئی ہے ۔ اس کا ہیڈ کواٹر سعودی عرب میں ہوگا ۔ اس میں عرب ممالک کے علاوہ ترکی اور مصر کی افواج بھی شامل ہیں۔ بعض لوگ پاکستان میں یہ تاثر دینے کی کوشش کررہے ہیں کہ یہ فوجی اتحاد دہشت گردی کے خلاف ہے ۔ خصوصاً داعش کی بڑھتی ہوئی قوت کا مقابلہ کرنے کے لئے ۔ اصل صورت حال یہ ہے کہ داعش موصل میں اپنی زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہی ہے ۔ داعش کا عراق میں تقریباً صفایا ہوگیا ہے ۔ اس میں سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک سے زیادہ بڑا اور اہم کردار ایران نے ادا کیا اور اس کے رضا کار وہاں بے جگری سے لڑے اور عراق کے اہم ترین صوبوں کو داعش کے قبضے سے آزاد کرا لیا ۔ ان جنگوں میں ایران کے دو ہزار سے زیادہ رضاکار ہلاک ہوئے ان میں کثیر تعداد عراق کے جنگوں میں ہلاک ہوئی اور زیادہ تر شام میں مارے گئے ۔ بلکہ خودکش حملوں میں ان کی زیادہ ہلاکتیں ہوئیں ۔ یہ عام قارئین کو بخوبی معلوم ہے کہ یہ اتحاد عجلت میں وجود میں لایاگیا ۔ اس وقت حوثی قبائل نے یمن پر مکمل قبضہ کر لیا تھا ۔ یمن کے قانونی صدر کو ملک بدر کردیا تھا یا وہ ملک سے خود فرار ہوگئے تھے ۔ گلف کے چھوٹے ممالک حوثیوں کے یمن پر مکمل فوجی قبضہ کے بعد خوفزدہ ہوگئے تھے چنانچہ گلف ریاستوں اور سعودی عرب کی سربراہی میں یہ فوجی اتحاد عمل میں لایا گیا جس کا بنیادی مقصد ایران کے بڑھتے ہوئے فوجی اور سیاسی اثر ورسوخ کو روکنا ہے اس میں ترکی ‘ مصر اور دوسرے ممالک نے بھی شمولیت اختیار کی ۔ ابتداء میں پاکستان کا نام بھی شامل تھا ۔ جب سعودی فوجی افسر میڈیا کو بریفنگ دے رہے تھے اس میں پاکستان کا جھنڈا صاف اور واضح طورپر نظر آرہا تھا بلکہ آج تک اس پریس بریفنگ میں نظر آتا ہے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ پاکستان اس اسلامی فوجی اتحاد میں شامل ہوچکا ہے ۔ حالانکہ سرکاری سطح پر اس کی تردید کی گئی اور حکومتی موقف کومضبوط بنانے اور سعودی عرب کے حکمرانوں کا پاکستان پر دباؤ کو کم کرنے کے لئے پاکستان کے پارلیمان کا سہارا لیا گیا اور حکومت کو مشورہ دیا گیا کہ سعودی عرب کی سربراہی میں اسلامی فوجی اتحاد میں شامل نہ ہو ۔ اس پر سعودی حکمران آگ بگولہ ہوئے ان کو خوش کرنے کیلئے دو رکنی وفد جس میں میاں شہباز شریف اور سرتاج عزیز شامل تھے پاکستانی وفد پر سعودی فرما روا برس پڑے اور پاکستانی رہنما اپنے موقف کا دفاع کرنے میں ناکام رہے ۔ کیونکہ سعودی حکمران کے سامنے پاکستان کے حکمران کی کوئی وقعت نہیں تھی وہ اپنی مرضی کا فیصلہ چاہتے تھے جس کی تصدیق وزارت خارجہ کے ترجمان نے اپنی ہفتہ وار بریفنگ میں تصدیق کردی کہ پاکستان کی فوج اسلامی فوجی اتحاد کا حصہ ہوگی دوسری طرف یمن اور سعودی عرب کے درمیان با قاعدہ جنگ دو سالوں سے جاری ہے ۔ یمن افواج آئے دن سعودی عرب پر دور مار میزائل سے حملے کررہے ہیں اس کے جواب میں سعودی سربراہی میں اتحاد یمن پر بمباری کررہی ہے ۔ سعودی عرب یہ الزامات لگاتا آرہا ہے کہ ایران اس جنگ کے پشت پر ہے بلکہ ایرانی دستے اس جنگ میں حصہ لے رہے ہیں ۔ ایسی صورت میں اسلامی فوجی کی پہلی ذمہ داری یہ ہوگی کہ وہ سعودی عرب کا دفاع کرے اور حوثی قبائلی اور ایرانی دستوں کو پسپاکردے ۔ اگر ایران نے گلف ممالک پر حملہ کرنے کی کوشش کی تو شاید امریکی بحری بیڑے سعودی اور گلف ممالک کی مدد کو آئے گا اس لیے بادی نظر میں یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی فوجی اتحاد ایران کے خلاف ہے جس کو امریکا اور ناٹو ممالک کی حمایت بھی حاصل ہے ۔ پس اس میں دو رائے نہیں کہ ہم سعودی عرب اور امریکا کے اتحادی ہیں اور ایران سے جنگ کی صورت میں ہم پابند ہوں گے کہ سعودی عرب اور گلف ممالک کی مدد کریں ۔