سینٹ کی کمیٹی برائے نچلی سطح پر اختیارات کی منتقلی کا اجلاس لاہو رمیں سینٹر کبیر محمد شہی کی صدارت میں ہوا جس میں 18ویں ترمیم کے تحت اختیارات اور وسائل کی منتقلی کا جائزہ لیا گیا ۔ صوبوں کو ہدایات جاری کیں کہ وہ اپنی سفارشات جلد سے جلد سینٹ کمیٹی کو روانہ کریں ۔واضح رہے کہ بعض عناصر نے 18ویں ترمیم کو پسند نہیں کیا اور اس کے کام میں روڑے اٹکائے جارہے ہیں ۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ چند ایک اختیارات وفاق سے صوبوں کو دئیے جارہے ہیں جو مضبوط مرکز کے نقطہ نظر کے ماننے والوں کو پسند نہیں آئے ۔ اس لیے ان کی مزاحمت بڑی شدت کے ساتھ جاری ہے ۔ دیکھا گیا ہے کہ وفاقی وزارتیں اور ادارے اثاثے منتقلی کے معاملے میں سست رفتاری سے کام لے رہے ہیں ۔ جبکہ LIABILITIESجلد بھیج رہے ہیں ایسے بہت سے ادارے ہیں جس کے افراد ‘ افسران کو تو روانہ کیا گیا مگر اس کے ساتھ فنڈ نہیں بھیجے ۔ اس لیے بلوچستان جیسے صوبے میں جہاں پانی کی شدید قلت ہے ۔جدید آبپاشی اسکیم کے لئے وسائل فراہم نہیں کیے حالانکہ سابق صدر آصف علی زرداری وہ اسکیم چین سے لائے تھے اور اس کو صوبوں‘ خاص طورپر سندھ اور بلوچستان میں عمل کرنا تھا ۔ وفاقی پانی و بجلی کی وزارت نے وسائل فراہم نہیں کیے ۔دوسری جانب ایک متعصب مولوی جو وسائل کا وزیر تھا اس نے فنڈ دینے سے انکار کیا ۔ اچھی اسکیم کے لئے ایم پی اے حضرات کے ذاتی فنڈز سے حصہ نہیں دیا گیا جس کی وجہ سے آبپاشی کی وہ اسکیم بند کردی گئی ۔ اور گٹر اسکیموں پر اربوں روپے سالانہ خرچ کیے جارہے ہیں ۔ تاہم یہ بنیادی ذمہ داری وفاقی حکومت کی ہے کہ بلوچستان جیسے پسماندہ ترین صوبے کے لئے وافر فنڈ فراہم کرے تاکہ وہ ترقی کے میدان میں دوسرے صوبوں سے بہت زیادہ پیچھے نہ رہ جائیں ۔ اس لیے زیادہ سے زیادہ اختیارات صوبوں کو جلد سے جلد فراہم کیے جائیں ۔ اسی طرح صوبے بھی زیادہ سے زیادہ اختیارات ضلعی اداروں کو منتقل کریں تاکہ ترقی کے رفتار کو مقامی طورپر تیز سے تیز تر کیاجائے اور اس کے فوائد عوام کو حاصل ہوں ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ایم پی اے فنڈز کا سلسلہ ختم کیاجائے ۔ اور سارے وسائل کو صوبے کے مجموعی سطح پر خرچ کیاجائے ۔ بڑی بڑی معاشی ترقی کے منصوبے بنائے جائیں اور سارے فنڈ وہاں خرچ کریں یا مقامی اداروں کو فراہم کریں ۔ وہ بھی اس ذمہ داری کے ساتھ کے فنڈ ضائع نہ ہوں گے جو کرپشن کرے گا اس کو تاحیات جیل میں رکھا جائے گا اس لیے پچیس فیصد ترقیاتی رقم مقامی اداروں کے لئے رکھی جائے اور 75فیصد ترقیاتی بجٹ صرف اور صرف معاشی اہمیت کے منصوبوں پر خرچ کی جائے ۔ ایم پی اے حضرات صرف اور صرف قانون سازی کریں ۔ اسمبلی اور قانون سازی کو زیادہ وقت دیں ۔ معاشی ماہرین پر ترقی کے کام ان کے حوالے کریں ۔ اگر ایسا ہوگا تو آئندہ انتخابات میں کوئی دھاندلی نہیں ہوگی ۔ کیونکہ دولت کے شوقین حضرات انتخابات میں حصہ ہی نہیں لیں گے۔ اس طرح کے اقدامات کے بعد ہم اچھی حکمرانی کی طرف گامزن ہوں گے اور صوبے میں کرپشن کم ہوگی ۔ جب تک ایم پی اے حضرات کے لئے سالانہ پچاس کروڑ کے خصوصی ذاتی فنڈز ہوں گے تو کرپشن اپنے عروج پر ہوگا اور انتخابات میں خون ریزی کے حد تک دھاندلی ہوگی ۔ عوامی رائے عامہ کی کوئی حیثیت نہیں ہوگی نہ ہی ملک بہتری کی طرف گامزن ہوگا۔