ملک میں گرمی کی شدت میں اضافہ ہوتے ہی لوڈشیڈنگ کا دورانیہ بھی بڑھا دیا گیا۔ دیہی علاقوں میں 14سے 16 جبکہ شہری علاقوں میں چھ سے آٹھ گھنٹوں کی لوڈشیڈنگ جاری ہے۔ بلوچستان کا تو تذکرہ ہی چھوڑ دیں ’یہاں پاور ٹرانسمیشن لائن ہی موجود نہیں تو پھر لوڈشیڈنگ کا کیا ذکر ۔ بلوچستان کے وسیع اور عریض علاقے میں ٹرانسمیشن لائن ہی نہیں ہے ۔مکران ‘ خاران ‘ چاغی بلکہ بلوچستان کے بیشتر علاقوں میں ٹرانسمیشن لائن ہی نہیں اور اسی طرح کوئٹہ اور جیکب آباد تک ٹرانسمیشن لائن اتنی بوسیدہ ہے کہ یہ صرف 400میگا واٹ کا بوجھ اٹھا سکتا ہے ،اس سے زیادہ کا نہیں ۔ اس میں بھی اکثر دیہی علاقوں میں بیس گھنٹے روزانہ بلکہ بعض علاقوں میں دو دنوں میں صرف ایک بار بجلی فراہم کی جاتی ہے ۔ کوئٹہ شہر میں روزانہ چھ سے آٹھ گھنٹے تک بجلی کی لوڈشیڈنگ جاری ہے ،یہ اعلانیہ لوڈشیڈنگ ہے ، غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ اس سے الگ ہے اس کی صارفین کوئی اطلاع نہیں دی جاتی ، بہا نہ یہ کہ مرمت کا کام جاری ہے ۔لائن لاسز کا بوجھ صارفین پر ڈالا جاتا ہے، ماہ کے آخری دس دنوں میں طویل ترین دورانیہ کے لئے بجلی جان بوجھ کر غائب کردی جاتی ہے اوراس کی کوئی وجہ نہیں بتائی جاتی بلکہ کیسکو کی انتظامیہ اس کو اپنا حق سمجھتی ہے کہ صارفین کو زیادہ سے زیادہ اذیتیں پہنچائی جائیں ۔ جیسا کہ عابد شیر علی ‘ جو بجلی اور پانی کے چھوٹے وزیر ہیں بر ملا یہ اعلان کررہے ہیں کہ جو لوگ بجلی کا بل ادا کررہے ہیں ان کو بھی سزا دیں گے اور پورے علاقے اور محلے کی بجلی کاٹ دیں گے کیونکہ کچھ لوگ بل ادا نہیں کررہے۔یہ ایک متکبر ‘ مغرور اور ذہنی طورپر مفلوج وزیر کی عوام کو دھمکی ہے ۔ وہ اپنے نظام کو ٹھیک کریں، حکومت کے حامی ارب پتی کارخانے داروں اور صنعت کاروں کی بجلی اور گیس چوری کو پہلے روکیں ،پہلے بلوچستان کے طول و عرض میں بجلی پہنچائیں ، مکران میں بجلی ایران سے آرہی ہے ، اس کی لوڈشیڈنگ بند کردیں کیونکہ ایران نے ایک منٹ کے لئے بجلی کی سپلائی بلوچستان میں نہیں روکی اور نہ ہی آج دن تک ایک منٹ کے لئے بجلی کا بریک ڈاؤن ہوا۔ یہ سب کچھ ہمارے ملک میں ہوا اور نا اہل حکمرانوں اور اہل کاروں نے کیا ۔