دنیا بھر میں ٹیکس چوری کے وسیع انتظامی ڈھانچے کا پردہ فاش کرنے پر انٹرنیشنل کنسورشیئم آف انویسٹیگیٹو جرنلسٹس، مکلیچی اور میامی ہیرلڈ کو صحافت کے معروف ترین انعام پُولٹزر سے نوازا گیا ہے۔
پُولٹزر انتظامیہ کا کہنا ہے کہ یہ اعزاز چھ براعظموں پر 300 مختلف صحافیوں کی مشترکہ کوششوں کا نتیجہ ہے۔
یاد رہے کہ پاناما پیپرز شائع ہونے کے بعد پاکستان سمیت متعدد ممالک سیاستدانوں اور حکام کو قانونی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
اس کے علاوہ امریکہ میں صدارتی انتخابات کے دوران ریپبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کے فلاحی خدمات کرنے کے دعووں کی جانچ پڑتال کرنے والے صحافی کو بھی پیولٹزر انعام دیا گیا ہے۔
پیولٹزر انعام کی جیوری نے کہا کہ واشنگٹن پوسٹ کے نامہ نگار ڈیوڈ فیرن تھولڈ کے مضامین نے ’شفاف اور واضح صحافت کا نمونہ پیش کیا‘ جس سے ٹرمپ کی سخاوت اور دریا دلی پر شکوک و شبہات پیدا ہوتے ہیں۔
ڈیوڈ فیرن تھولڈ صدر ٹرمپ کی جانب سے خواتین کے بارے میں ناشائستہ بیان والی سنہ 2005 کی ٹیپ کو بھی سامنے لائے تھے۔
واشنگٹن پوسٹ کے مطابق فیرن تھولڈ نے ٹرمپ کی دریا دلی کے دعووں کی اس وقت جانچ شروع کی جب انھوں نے انتخابات کے دوران جنگ سے لوٹے فوجیوں کی تنظیم کے لیے 60 لاکھ امریکی ڈالر دینے کا عہد کیا تھا۔
اخبار کے مطابق فیرن تھولڈ نے اپنی تفتیش کے دوران یہ پایا کہ فوجی تنظیم سے کیا جانے والا عہد پورا کیا گیا لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کی بہت سی دوسری خیراتی سرگرمیوں کے بیان میں مبالغے سے کام لیا گيا۔
دیگر پیولٹزر انعام جیتنے والوں میں نیویارک ڈیلی نیوز اور تفتیشی صحافت کے لیے مخصوص آن لائن پلیٹ فارم پروپبلکا شامل رہے۔ انھوں نے پولیس کی زیادتیوں کا پردہ فاش کیا جس میں یہ دیکھا گیا کہ پولیس نے زیادہ تر غریبوں اور نسلی اقلیت کے لوگوں کو گھروں سے زبردستی باہر نکالا تھا۔
نیویارک ٹائمز کے سٹاف کو بین الاقوامی رپورٹنگ کا انعام دیا گیا۔ انھوں نے دوسرے ممالک میں روسی قوت کے اظہار کے لیے صدر والادیمیر پوتن کی کوششوں پر مضامین لکھے۔
اسی اخبار کے سی جے چیورز کو ایک امریکی فوجی کے جنگ کے بعد تشدد کی راہ پر چلنے کی تفصیل کو قلمبند کرنے کے لیے فيچر رائٹنگ کے ایوارڈ کا حقدار قرار دیا گيا۔
نیویارک ٹائمز میں شائع بریکنگ نیوز کی تصویر کے لیے ایک فری لانس فوٹوگرافر ڈینیئل بیرہولاک کو نیوز فوٹوگرافی کے انعام کا حقدار قرار دیا گیا۔ انھوں نے فلپائن کے صدر روڈریگو دوترتے کی منشیات کے خلاف جنگ کے نتائج کو تصویروں کے ذریعے بیان کیا تھا۔
یاد رہے کہ پیولٹزر انعامات سنہ 1917 سے دیے جا رہے ہیں اور اس بار تمام درجوں کے لیے ڈھائی ہزار سے زیادہ درخواستیں موصول ہوئی تھیں۔