کوئٹہ : ماہرین صحت کے مطابق پاکستان میں رعشہ (پارکنسنز ) میں مبتلا مریضوں کی تعداد 6لاکھ سے زائد ہے ،یومیہ بنیادوں پر 80سے 100پاکستانی اس مرض میں مبتلا ہورہے ہیں یہی حالت رہی تو 2030تک رعشہ میں مبتلا مریضوں کی تعداد 12لاکھ سے تجاوز کرجائیگی ،دنیا میں رعشہ کے شکار افراد کی زیادہ تعداد60سے زائد عمر کے ہے تاہم پاکستان میں 20سال سے کم عمر کے افراد میں اس مرض کا پایا جانا قابل تشویش امر ہے ،اس مرض میں اضافے کی خاص وجہ غذائی اجناس اور فصلوں پر کیڑے مار ادویات کا زیادہ استعمال ہے ۔ان خیالات کااظہار ڈاکٹرسلیم بڑیچ ،ڈاکٹر عبدالباقی دوتانی ،ڈاکٹر نقیب اللہ اچکزئی ،ڈاکٹر ظاہر خان مندوخیل ،ڈاکٹرامان اللہ کاکڑ ودیگر نے گزشتہ روز عالمی یوم رعشہ (پارکنسنز ) کے موقع پر کے بولان میڈیکل کمپلیکس ہسپتال کوئٹہ میں نکالی گئی ریلی کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ ان کاکہناتھاکہ رعشہ ایک دماغی مرض ہے جو انتہائی آہستگی سے بڑھتاہے تاہم اس مرض میں مبتلا مریضوں میں اعلامات کئی برس پہلے ہی ظاہر ہونا شروع ہوجاتے ہیں اس مرض کی خاص وجہ انسانی دماغ میں ڈوپامن نامی کیمیکل کی کمی ہے جس کی وجہ سے کسی بھی شخص میں حرکات وسکنات ظاہر کرنے کی صلاحیت ختم ہوجاتی ہے ،اگر چہ یہ جان لیوا بیماری نہیں تاہم اس کے نتیجے میں پیدا ہونیوالی پیچیدگیاں اکثر جان لیوا ثابت ہوتی ہے اس وقت پاکستان میں رعشہ کی بیماری میں مبتلا مریضوں کی تعداد 6لاکھ ہے لیکن روزانہ کی بنیاد پر اس مرض میں 80سے 100افراد مبتلا ہورہے ہیں اس کی خاص وجہ فصلوں پر کیڑے مار ادویات کا زیادہ استعمال ہے ،یہ ادویات غذائی اجناس کے ذریعے انسانی جسم میں منتقل ہوکر رعشہ کا سبب بنتی ہے اگر اسی رفتار سے رعشہ کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہا تو 2030تک پاکستان میں اس مرض میں مبتلا افراد کی تعداد 12لاکھ سے تجاوز کرجائیگی ،دنیا میں اس مرض میں مبتلا افراد کی زیادہ تر تعداد کی عمریں 60سال سے زائد ہوتی ہے لیکن پاکستان میں 20سال سے کم کے افراد میں بھی اس مرض کے اعلامات کو دیکھا جاسکتاہے اس کی وجہ سے کسی بھی مریض کے جسم کی چستی کم ہونا شروع ہوجاتی ہے بلکہ اس کے سونگنے کی حس بھی ختم ہوجاتی ہے اور پھر رعشہ اس کے ایک ہاتھ میں آجاتاہے اور انسان اپنے جسم میں اکڑن پن محسوس کرنے لگتاہے۔