سینٹ کی داخلہ کمیٹی کے اجلاس میں یہ انکشاف کیا گیا کہ چالیس لاکھ کے قریب غیر ملکی بلوچستان کے سماج کا حصہ بن گئے ہیں اس لیے بلوچ عوام کی تشویش جائز ہے کہ بلوچ دشمن عناصر بلوچوں کو اپنے ہی وطن میں اقلیت میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں انہی وجوہ کی بناء پربلوچ عوام کو اجتماعی طورپر مردم شماری سے متعلق شدید تحفظات ہیں ۔ اس لیے بلوچ قوم پرست پارٹیوں نے یہ مطالبہ کیا تھا کہ حالات کے معمول پر آنے تک مردم شماری کا عمل بلوچستان میں معطل رکھا جائے ۔ وجہ ظاہر ہے کہ لاکھوں بلوچ اپنے گھروں سے بے گھر ہوئے ہیں یہ لوگ سندھ‘ پنجاب ‘ افغانستان اور ایران میں پناہ لے چکے ہیں جبکہ اس کے مقابلے میں لاکھوں افغان مہاجرین کو بلوچستان میں بسایا گیا ہے۔بلوچستان کے بیشتر علاقوں سے آئے دن جھڑپوں کی خبریں آرہی ہیں بلکہ سیکورٹی فورسز کیلئے بھی یہ کوئی آسان کام نہیں کہ وہ خطر ناک علاقوں میں مردم شماری کا کام سرانجام دیں اگر نارمل حالات میں مردم شماری بلوچستان میں کرائی جاتی تو بہتر تھا لیکن حکومت نے سپریم کورٹ کے فیصلے کا بہانہ بنا کر ملک کے دوسرے حصوں کی طرح بلوچستان میں بھی مردم شماری شروع کرادی جو غیر مناسب ہے کیونکہ اس سے خطر ہ ہے کہ حکومت صحیح معلومات اکٹھی نہیں کر سکے گی اور نہ ہی کبھی بلوچ عوام ان غلط اور متنازعہ نتائج کو تسلیم کریں گے ۔بعض لوگوں کو شوق ہے اپنی اقلیتی آبادی میں اضافہ ظاہر کرکے زیادہ فنڈز‘ زیادہ نوکریاں اور پارلیمان اور اسمبلی میں زیادہ سیٹ حاصل کر نے کا ۔ بلوچ عوام کو ان باتوں کا اب کوئی شوق نہیں رہا موجودہ حالات میں بلوچوں کا رویہ تبدیل نظر آتا ہے ۔ البتہ ایک مناسب عمل جس سے بلوچوں کا اعتماد حاصل کیا جاسکتا ہے یہ ہوگاکہ افغانستان کے مفتوحہ علاقوں کو فوری طورپر بلوچستان سے الگ کرکے پختونخوا صوبے میں شامل کیاجائے ورنہ تاریخ کے اگلے دور میں بلوچستان افغانستان کا حصہ بن جائے گا کم سے کم افغان مہاجرین کی مسلسل آمد سے آبادی کے تناسب میں تبدیلی کے بعد ۔