منگی ڈیم کی تعمیر کی افتتاح وزیراعلیٰ نواب زہری نے کے ۔ اس کی تعمیر کا فیصلہ تقریباً 54سال بعد کیا گیا۔ یہ منصوبہ بنیادی طورپر 1963ء میں بنایا گیا ۔ گزشتہ ادوارمیں کئی بار یہ کوشش کی گئی کہ کوئٹہ کو پانی فراہم کرنے کیلئے منگی ڈیم تعمیر کیاجائے ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ گزشتہ سالوں تک بلوچستان کا ترقیاتی بجٹ صرف چند ارب روپوں تک محدود تھا بلکہ پورے 1990ء کی دہائی تک ترقیاتی بجٹ کروڑ روپوں میں تھا۔ بلوچستان کے پاس اپنے وسائل کبھی نہیں رہے یا بلوچستان کو وسائل جان بوجھ کر نہیں دئیے گئے ۔ 2000ء کی دہائی کے ابتدائی سالوں میں وزیراعلیٰ بلوچستان ہر ہفتہ اسلام آباد کا ایک یا ترا ضرور کرتا تھا تاکہ وفاق سے اتنا فنڈ حاصل کیاجائے کہ صوبے کے سرکاری ملازمین کو تنخواہیں دی جاسکیں ۔ بلوچستان میں گزشتہ این ایف سی ایوارڈ سے قبل صوبائی اسمبلی کے اراکین کو صرف چند لاکھ روپے ایم پی اے فنڈ کے طورپر ملا کرتا تھا ۔ اس ایوارڈ میں اضافے کے بعد جمعیت علمائے اسلام کے پارلیمانی لیڈر نے وزیراعلیٰ کو بلیک میل کیا اور یہ دباؤ ڈالا کہ ہر صوبائی اسمبلی رکن کے لئے پچاس کروڑ روپے سالانہ ترقیاتی فنڈ مختص کیاجائے ۔اس کی وجہ تھی کہ وہ اربوں روپے ترقیاتی فنڈ کا مالک تھا اس کی صوابدید پر فنڈز تقسیم اور ریلیز ہوتے تھے، یعنی موصوف ہر سال ساٹھ ارب روپے کا مالک بن گیا ۔دوسری طرف وزیراعلیٰ جو اقلیتی پارٹی سے تعلق رکھتے تھے ان کی اپنی پارٹی کی اکثریت نہیں تھی اس لیے وہ اتحادی پارٹیوں کے دباؤ میں رہے اور ان کے ہاتھوں بلیک میل ہوتے رہے ۔ اقلیتی پارٹیوں کوریاست کے طاقتور عناصر کی حمایت حاصل تھی اور وہ وزیراعلیٰ کے مقابلے میں اتحادی پارٹیوں کی حمایت کرتے نظر آئے ۔ آج بھی سیاسی میدان میں بالکل یہی صورت حال ہے اتحادی پارٹیاں اپنے احکامات صادر کرتے نظر آتے ہیں اس کی سب سے زندہ مثال کہ اتحادی پارٹی کے مئیر اکثریت کھونے کے باوجود سیاسی بلیک میلنگ کی وجہ سے استعفیٰ دینے سے انکار کرتا رہا اور اس نے اتنا وقت حاصل کیا کہ مخالفین کو بے اثر کر سکے۔ مےئر موصوف نے کوئٹہ میٹروپولٹین کا بجٹ سال کے آخری مہینوں میں پاس کرانے کی کوشش کی ۔ یہ بات درست نہیں ہے کہ صوبائی حکومت اپنے طورپر خودمختار تھی یا وزرائے اعلیٰ زیادہ طاقتور تھے اگر طاقتور اور مکمل طورپر با اختیار ہوتے تو بلوچستان کی شکل بدل چکی ہوتی ۔ ہر ایم پی اے کو پچاس کروڑ روپے دینے کے بعد صوبائی خزانہ میں صرف تنخواہوں کی رقم بچ جاتی تھی ۔ سریاب کے بعض علاقے سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹر مالک بلوچ کے سیاسی حلقے سمجھے جاتے تھے طالب علمی کے زمانے میں ان کا اثر ورسوخ بہت زیادہ تھا۔ وزیراعلیٰ صوبے کے منتظم اعلیٰ ہونے کے باوجود ترقیاتی فنڈز سے ان علاقوں کی معمولی اسکیموں کیلئے فنڈز حاصل نہ کر سکے ۔ اتحادی پارٹی نے فنڈز دینے سے انکار کیا تو انہوں نے چند چھوٹی موٹی اسکیمیں خصوصاً صاف پانی کی فراہمی اسکیموں کو غیر ترقیاتی اخراجات کے فنڈز سے چوری چھپے مکمل کیا۔ اتنی بڑی بڑی رقم حاصل کرنے اور خرچ کرنے کے بعد کوئی رکن اسمبلی ‘ 1985سے 2017ء ایک ایسی اسکیم کی نشاندہی کرے جس سے ان کے اپنے لوگوں نے روزگار حاصل کیا ہو یا ریاست کی آمدنی میں اضافہ ہوا ہو ۔ گزشتہ سال صرف ایک ایم پی اے صاحب نے ایک ارب 80کروڑ روپے اپنی ’’اسکیموں ‘‘ پر خرچ کیے ۔ کوئی پوچھنے والا ہے کہ وہ رقوم کہاں خرچ ہوئی،اس سے مکمل ہونے والی کوئی اسکیم نظر نہیں آتی ؟بلوچستان کے حوالے سے جہاں تک وفاقی ترقیاتی اسکیموں کا تعلق ہے وہ سالوں میں نہیں دہائیوں میں مکمل ہوئیں ۔ کم سے کم تین دہائیوں کے بعد گوادر پورٹ بنا لیکن اس میں ابھی بھی بہت سارا کام ہونا ہے لیکن پھر ہر اسکیم کی طرح اس پر بھی گزشتہ دس سال سے کوئی کام نہیں ہوا ۔ کچھی کینال گزشتہ پچیس سالوں سے زیر تعمیر ہے ۔ مسئلہ رویے میں تبدیلی لانے کا ہے کہ بلوچستان ملک کا حصہ ہے اور اس کو پاکستان کا حصہ ہی تسلیم کیاجائے ۔